1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافیوں کے خلاف مقدمات، مختلف تنظیموں کی طرف سے مذمت

25 ستمبر 2020

حکومت کی طرف سے 49 صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف مقدمات کے اندراج کی صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھر پور مذمت کی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیم کے کارکن کو ہراساں کیے جانے پر اظہار تشویش کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3j0Ym
Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

سول سوسائٹی اور صحافتی برادری کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اقدامات ملک کو فاشزم کی طرف دھکیل رہے ہیں اور یہ کہ ایسے اقدامات ملکی آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کی وہ بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

صحافیوں کا رد عمل

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر جمعرات 24 ستمبر کو یہ خبر گردش کرتی رہی کہ 49 کے قریب صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاری حکومت کی طرف سے کی جارہی ہے اور ایف آئی اے میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔ گوکہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن صحافی برادری اور سول سوسائٹی مطمئن نظر نہیں آتی۔

پاکستان کی صحافی برادری ان مقدمات کی خبروں پر سخت برہم ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی حکومت ملک کو فاشزم کی طرف دھکیل رہی ہے، جس سے پاکستان کو شدید نقصان ہوگا۔

ڈی ڈبلیو نے جب ڈی آئی جی ایف آئی اے راولپنڈی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان مقدمات سے لا علمی ظاہر کرتے ہوئے، ڈی جی سائبر کرائمز پاکستان سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ڈی جی آفس سے بتایا گیا کہ ڈی جی عامر فاروقی اجلاس میں مصروف ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے ان کو پیغام بھی بھیجا، جس کا جواب موصول نہیں ہوا۔

اس تردید کے باجود صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی بضد ہے کہ ایسے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

مقدمات کی مذمت

پی ایف یو اے نے ان 'جھوٹے مقدمات‘ کی خبروں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے سیکریڑی جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں 49 صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف مقدمات کی خبروں پر سخت تشویش ہے۔ یہ بے بنیاد مقدمات پاکستان الیکڑانک کرائم ایکٹ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان مقدمات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ بصورت دیگر پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج ہوگا۔‘‘

خواتین صحافیوں پر حملے، پارلیمانی کمیٹی نے بات تو سنی

پاکستان: صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر حملے، اقوام متحدہ کی مذمت

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس کا نوٹس لیں: ''ہم نے ماضی میں بھی ان جبر کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا ہے اور اب بھی ہم ایسا ہی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دھونس اور دھمکی سے ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا۔ ہم ایسے ہتھکنڈوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔‘‘

معروف صحافی اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیا الدین کے خیال میں اس طرح کے اقدامات طاقت ور حلقوں کی بوکھلاہٹ ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ حلقے نواز شریف کو نہیں روک سکے۔ حالانکہ انہیں ایک عدالت سے سزا ہوئی ہے اور وہ تاحیات انتخابات لڑنے کے لیے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں لیکن ا س کے باوجود کیوں کہ وہ پنجاب سے ہیں، ان حلقوں کے لیے انہیں روکنا آسان نہیں تو یہ بوکھلاہٹ میں میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف اقدامات کر کے انہیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافی برادری کو بتایا گیا کہ مقدمات کی خبر جعلی ہے: ''اگر یہ جعلی خبر ہے تو اب تک اس کی حکومت کی طرف سے تردید کیوں نہیں ہے۔ اگر حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ خبر جعلی ہے تو وہ فوراﹰ اس کی تردید کرے۔‘‘

Pakistan Journalisten Demonstration Karachi
سول سوسائٹی اور صحافتی برادری کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اقدامات ملک کو فاشزم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/R.Tabassum

شبلی فراز سے ملاقات منسوخ

اسلام آباد کے سینیئر جرنلسٹس فورم نے، جس میں کئی نامورصحافی بھی شامل ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز سے آج ہونے والی اپنی ملاقات احتجاج کے طور پر منسوخ کردی ہے۔ فورم سے وابستہ جمیل احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا فورم ہر جمعہ کو حکومتی اکابرین، ماہرین معیشت، سیاست دان، سول سوسائٹی کے تعلق رکھنے والے افراد یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مدعو کرتا ہے، جہاں یہ شخصیات نہ صرف غیر رسمی طور پر سینیئر صحافیوں سے ملاقات کرتے ہیں بلکہ ایک غیر رسمی بات چیت بھی کرتے ہیں۔ اس مرتبہ ہم نے شبلی فراز صاحب کو دعوت دی تھی لیکن ان مقدمات کی خبروں کے بعد ہم نے احتجاج کے طور پر یہ پروگرام منسوخ کردیا ہے۔‘‘

ایچ آرسی پی بھی چراغ پا

ناقدین کے خیال میں ملک میں جبر کا ماحول بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی میڈیا پر کئی مبصر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ حکومت کی لائن ٹو کرتا ہے اور طاقتور حلقوں پر تنقید سے اجتناب کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی کا دعویٰ ہے کہ ان کے افراد کو بھی ملک کے طاقت ور حلقوں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ تنظیم سے وابستہ اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کو ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا جارہا ہے: ''طاقتور حلقے چاہتے ہیں کہ ہم نہ کچھ کہیں، نہ کچھ سنیں اور نہ کچھ بولیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو یہ دھمکائیں گے، ہراساں کریں گے اور غداری کے سرٹیفیکیٹ دیں گے۔ سیاست دانوں اور میڈیا کو وہ پہلی ہی قابو کر چکے ہیں۔ اب سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی رہے گئی ہے، جو ان کے قابو میں نہیں آرہی تو ان کو قابو کرنےکے لیے مقدمات اور دھونس ودھمکی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ملک فاشزم کی گرفت میں ہے۔‘‘

حکومت کا موقف

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ فوج کو جو بھی بدنام کرے گا، اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا: ''ہمارا آئین یہ کہتا ہے کہ فوج اور عدلیہ کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے اور پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے۔ اگر کوئی فوج کو بدنام کر کے ملک کو کمزور کرے گا تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، چاہے وہ صحافی ہو، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یا سیاست دان۔ ہم فوج کے خلاف ہرزہ سرائی بالکل برداشت نہیں کریں گے اور جو ایسا کرے گا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

’کمپنی نے کہا کہ یہ کتاب نہیں چلے گی‘