1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافیوں کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے، بھارتی عدالت

جاوید اختر، نئی دہلی
3 جون 2021

بھارتی سپریم کورٹ نے بدھ تین جون کو معروف صحافی ونود دووا کے خلا ف دائر کردہ ملک سے غداری کا کیس خارج کر دیا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کے ایک سابقہ فیصلے کے تحت صحافیوں کو ایسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/3uNq3
Indien | Demonstration gegen das Sedition-Gesetz aus der Kolonialzeit
تصویر: DW/M.Krishnan

ایسے وقت میں جب بھارت میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے فیصلوں اور اقدامات، نیز حالات و واقعات کے حوالے سے اپنی رائے ظاہر کرنے پر صحافیوں کے خلاف غداری جیسے الزامات کے تحت مقدمات دائر کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو نہایت اہم قرار دیا گیا ہے۔

صحافیوں کی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم کہا کہ بھارت میں صحافت کی آزادی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافیوں کی ملک گیر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپورنے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہم ماضی کے اپنے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ کافی نہیں ہے۔ کیونکہ حکومتیں سلامتی کے نام پر غداری کے قانون کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح اور غلط استعمال کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس قانون کو بھارتی تعزیرات سے حذف کر دیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ ایک مہذب سماج میں اور بالخصوص صحافیوں کے خلاف غداری جیسے قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ برطانیہ نے بھی سن 2009 میں اس قانون کو ختم کر دیا تھا۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

Indien Journalist Padma Shri (R)
صحافی ونود دووا بھارت کے اہم ترین سویلین ایوارڈ پدم شری حاصل کرتے ہوئے۔تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

معاملہ کیا تھا؟

ملک کے اہم ترین سویلین ایوارڈ پدم شری یافتہ معروف بھارتی صحافی ونود دووا پر گزشتہ برس دہلی کے فسادات کے سلسلے میں ایک رپورٹ نشر کرنے پر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ان پر فرضی خبریں پھیلانے، عوام میں افراتفری پیدا کرنے، اہانت آمیز مواد شائع کرنے اور حکومت کو بدنام کرنے والے بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

 بی جے پی رہنما نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ ونود دووا نے اپنے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ”ہلاکتوں اور دہشت گردانہ حملوں‘‘ کا استعمال کیا۔

 فروری سن 2020 میں ہونے والے دہلی فسادات میں پچاس سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً دو سو زخمی ہوئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ فسادات ایسے وقت ہوئے تھے جب امریکا کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہلی میں موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے ونود دووا کے خلاف دائر کیس کو منسوخ کر دیا تاہم ان کی اس درخواست کو تسلیم نہیں کیا کہ دس برس سے زیادہ عرصے سے کام کرنے والے کسی صحافی کے خلاف کوئی کیس دائر کرنے سے قبل ہائی کورٹ کے کسی جج کی صدارت والے پینل سے اس کی منظوری لی جائے۔ سپریم کورٹ کا خیال تھا کہ ایسا کرنا عدلیہ کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے کے مترادف ہو گا۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

صحافیوں کی قانونی تحفظ حاصل ہے

فاضل ججوں نے اس انتہائی اہم فیصلے میں سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر صحافی کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق،”ملک سے غداری کے حوالے سے سن 1962کے کیدار ناتھ سنگھ کیس کے تحت تمام صحافیوں کو تحفظ حاصل ہے۔"

سن 1962 کے مذکورہ کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے سخت الفاظ کا استعمال یا قانونی ذرائع سے حالات کو بہتر بنانے کے لیے دیے گئے مشورے غداری کے زمرے میں نہیں آتے۔

Oberstes Gericht Delhi Indien
تصویر: picture-alliance/dpa

صحافیوں کے خلاف مقدمات میں اضافہ

صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے دور میں پریس کی آزادی پر قدغن عائد کرنے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ صحافیوں پر حملے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت تاہم اس سے انکار کرتی ہے۔

ہارڈ نیوز میگزین کے ایڈیٹر سنجے کپور کا کہنا تھا،”بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پچھلے سات برسوں کے دوران صحافیوں کے خلاف غداری اور انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کے تحت کیسز کی تعداد میں تیزی آ  گئی ہے۔ چونکہ حکومت میڈیا کا ذرا بھی احترام نہیں کرتی اس لیے اس کے بعض وزراء نے صحافیوں کو 'Presstitutes‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔"

سنجے کپور کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو کورونا وائرس، کسانوں کے احتجاج اور جنسی زیادتی جیسے واقعات کی رپورٹنگ کرنے پر بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدیق کپن کی مثال دی۔ جنہیں گزشتہ برس اکتوبر میں ایک نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور موت کی رپورٹنگ کے لیے اتر پردیش جاتے ہوئے راستے میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور وہ اب تک جیل میں ہیں۔

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے مظاہروں کے سلسلے میں خبریں دینے پر کئی معروف صحافیوں کے خلاف غداری کے مقدمات دائر کیے گئے تھے۔

میڈیا پر بڑھتا کنٹرول

صحافیوں کے لیے مشکل حالات

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈر کی رپورٹ کے مطابق بھارت 180 ملکوں کی ورلڈ پریس فریڈم رینکنگ میں گزشتہ برس مزید دو مقام نیچے گر کر 142 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔

رپورٹرز ودآوٹ بارڈر کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر ہندو قوم پرست جماعت کے نظریے کی تائید کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ پریس کی آزادی کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہے اور صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

پریس گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور کہتے ہیں،”افسوس کی بات یہ ہے کہ عدالتیں بھی ملک سے غداری یا اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں