1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافی زبیر کی گرفتاری پر جرمنی کے تبصرے سے بھارت ناراض

جاوید اختر، نئی دہلی
8 جولائی 2022

صحافی محمد زبیر کی گرفتاری پر جرمن حکومت کا تبصرہ بھارت کو کافی ناگوار گزرا ہے۔ نئی دہلی حکومت نے اسے ملک کا داخلی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہذا اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔

https://p.dw.com/p/4DpsS
Indien | Mohammed Zubair | Journalist
فیکٹ چیکر ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کو گرفتار کیا تھاتصویر: Hindustan Times/IMAGO

جرمنی نے بھارتی فیکٹ چیکر ویب سائٹ آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کی گرفتاری کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کے صحافی رچرڈ واکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کرسٹیان واگنر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پریس کی آزادی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا اطلاق بھارت پر بھی ہوتا ہے۔ "بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ اس لیے ہر کوئی اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی کو خاطر خواہ اہمیت دے گا۔"

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ "آزاد صحافت کسی بھی سماج کے لیے سود مند ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرنا تشویش کی بات ہے۔ صحافیوں کو ان کی تحریر یا تقریر کے لیے جیل میں نہیں ڈالا جانا چاہئے۔"  انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی اس مخصوص کیس (زبیر کی گرفتاری) سے واقف ہے اور نئی دہلی میں جرمن سفارت خانہ اس پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

کرسٹیان واگنر نے بتایا کہ جرمنی یورپی یونین کے اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر اس معاملے کو بھارت کے ساتھ بات چیت کا حصہ بنانے کے لیے کام کرے گا۔ "اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی بھارت کے ساتھ یورپی یونین کی بات چیت کا حصہ ہے۔"

رچرڈ والکر نے جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان سے پوچھا تھا کہ جرمنی یوں تو دیگر ملکوں میں اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی کے خلاف واقعات پر بہت کھل کر بولتا ہے لیکن بھارت میں پریس کی آزادی کی نکتہ چینی کرنے میں جھجھک کیوں محسوس کرتا ہے، حتی کہ محمد زبیر کی گرفتار کے کوئی دس دن گزر جانے کے باوجود بھارتی حکومت کے اس اقدام کی کھل کر نکتہ چینی نہیں کی ہے۔

بھارت نے کیا جواب دیا؟

جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے جرمنی کے تبصرے پر ان کا ردعمل معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر ضروری تبصرہ ہے۔

باگچی نے جمعرات کو معمول کی پریس کانفرنس کے دوران کہا،"میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور میرا یا کسی اور کا اس معاملے پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔"

باگچی کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اور کسی کو بھی اس طرح کے تبصرے کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا،"پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں ایک آزاد عدالتی نظام ہے۔ کسی معاملے کی مکمل جانکاری کے بغیر اس طرح کے تبصرے سود مند نہیں ہوتے اس لیے ان سے بچنا چاہئے۔"

محمد زبیر کون ہیں؟

محمد زبیر ایک فیکٹ چیکر ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی ہیں۔ دہلی پولیس نے انہیں 27 جون کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سن 2018 میں ایک  ٹویٹ کے ذریعے ایک مذہبی طبقے کے جذبات مجروح کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زبیر نے اپنی متنازع ٹویٹ میں ایک تصویر استعمال کی تھی جومعروف فلم ساز ہرشی کیش مکھرجی کی سن 1983میں ریلیز ہونے والی فلم 'کسی سے نہ کہنا' کی تھی۔

زبیر کی گرفتاری اس وقت ہوئی جب زبیر نے بی جے پی کی ترجمان (اب معطل) نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی اہانت سے متعلق ایک ویڈیو کلپ شیئر کردی۔ انہیں پہلے پانچ دنوں کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا۔ اس کے بعد2 جولائی کو پولیس نے ان پر بیرونی ملکوں سے مالی مدد حاصل کرنے سے متعلق قانون (ایف سی آر اے) کے تحت اضافی الزامات عائد کردیے۔ اور چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے انہیں 14دنوں کے لیے تہاڑ جیل بھیج دیا۔

اترپردیش پولیس نے بھی 4 جولائی کو ان پر تین شدت پسند ہندو رہنماوں کو "نفرت پھیلانے والا" کہنے کے الزام میں ایک اور کیس دائر کردیا۔ حالانکہ ان تینوں ہندو رہنماوں پر پہلے ہی "نفرت پھیلانے" کے الزامات کے تحت کیس دائر کیے جاچکے ہیں۔

محمد زبیر
محمد زبیر تصویر: twitter.com/zoo_bear

گرفتاری کی ملکی اور عالمی سطح پر نکتہ چینی

محمد زبیر کی گرفتاری کی بھارت کی تقریباً تمام صحافتی تنظیموں، سابق ججوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نکتہ چینی کی ہے۔

اقوام متحدہ نے بھی محمد زبیر کی گرفتاری کو پریس کی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا،"دنیا بھر میں ہر جگہ کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ آزادانہ طور پر اظہار خیال کی اجازت دی جائے۔ صحافیوں کو آزادی کے ساتھ اور کسی طرح کی زیادتی کے خوف کے بغیر اظہار رائے کی اجازت دی جائے۔"

محمد زبیر کی گرفتاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ا ن کا مزید کہنا تھا "صحافی جو لکھتے ہیں، جو ٹوئٹ کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس کے لیے انہیں جیل نہیں ہونی چاہئے۔"

خیال رہے کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت کی رینکنگ 142 سے گر کر روا ں برس 150ہوگئی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید