1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستعراق

شام کے اعلیٰ سفارت کار عراق کے دورے پر

4 جون 2023

شام کے وزیر خارجہ نے اتوار کے روز بغداد کے دورے کے دوران اہم اتحادی عراق کے ساتھ انسانی امداد اور منشیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف جنگ کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔

https://p.dw.com/p/4SB21
Iraq's prime minister announces plans for a $17 billion regional transportation  project
تصویر: IRAQI PRIME MINISTER'S PRESS OFFICE/AFP

 

شام  کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کا دورہ عراق کئی اعتبار سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب سالوں سے خانہ جنگی کا شکار عرب ملک شام، برسوں کی سفارتی تنہائی سے باہر نکلا ہے۔ ابھی حال ہی میں عرب لیگ کے 22 رکن ممالک نے اس اتحاد سے شام کی رکنیت کی معطلی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس امر پر رضامندی کے چند ہفتوں بعد ہی شامی وزیر خارجہ اتوار چار جون کو عراقی دارالحکومت بغداد پہنچے۔

عرب لیگ میں واپسی کے بعد صدر بشار الاسد کو برسوں کی خانہ جنگی کے بعد دوبارہ علاقائی سطح پر ایک فعال سیاسی لیڈر کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

عراق شام کے عرب بائیکاٹ کے دوران دمشق کا اتحادی رہا اور  اس نے شام سے کبھی بھی تعلقات منقطع نہیں کیے اور شام کی خانہ جنگی کے دوران، خاص طور پر اسلامک اسٹیٹ گروپ کے خلاف لڑائی میں دو طرفہ قریبی تعاون برقرار رکھا۔

Irakische Grenze zum Iran und zu Syrien wieder offen
شام اور عراق کے درمیان سرحدی علاقہتصویر: picture-alliance/dpa

اتوار کو عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے اپنے شامی ہم منصب  فیصل مقداد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بغداد عرب لیگ میں شمولیت کی واپسی کی ''ابتداء کرنے والوں میں سے ایک‘‘ تھا۔

باہمی دلچسپی کے امور

عراق اورشام کے وزرائے خارجہ نے  شامی پناہ گزینوں کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا جو جنگ شروع ہونے کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اب عراق کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان اور ترکی میں بھی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

Bildergalerie Syrien Flüchtlinge Irak
شامی پناہ گزین عراق میں داخل ہونے کی کوشش میںتصویر: AP

عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے کہا، ''ہمیں تقریباً 250,000 پناہ گزینوں کو پناہ فراہم کرنا پڑی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے اکثریت عراق کے نیم خود مختار کردستان کے علاقے میں کیمپوں میں رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا قدم شام میں انسانی امداد پہنچانے کا عمل ہو گا، جو جنگ اور چھ فروری کو آنے والے زلزلے سے تباہ ہو چکا ہے اور جس نے ترکی کو بھی متاثر کیا۔ اس زلزلے سے دونوں ممالک میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

قدیم جنگوں اور جدید فوجی مہم جوئیوں کے ماحولیاتی نقصانات

شامی وزیر خارجہ مقداد نے زلزلے کے بعد عراق کی ''یکجہتی‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور دو طرفہ تعلقات کی ''ترقی‘‘ کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات سے لاحق خطرے کو ختم کرنے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے۔‘‘

اُدھر عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ مقداد کی عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی اور صدر عبداللطیف راشد سے بھی ملاقات متوقع ہے۔

Syrien Damaskus Straße Checkpoint
دمشق میں قائم بغداد اسٹریٹ پر چیک پوائنٹتصویر: picture-alliance/dpa

منشیات کی اسمگلنگ میں اضافہ

اس عرب خطے میں پچھلے سالوں میں منشیات کی اسمگلنگ میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔ عراقی محافظوں نے مارچ میں شام کے ساتھ سرحد پر تین ملین سے زیادہ کیپٹاگون گولیاں قبضے میں لی تھیں۔

 سکیورٹی کوآرڈینیشن کے علاوہ، بغداد اور دمشق پانی سمیت دیگر اہم مسائل پر ہم آہنگی جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کو خطرناک قلت کا سامنا ہے۔

 پڑوسی ممالک میں ڈیموں کی تعمیر اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے دونوں ممالک میں پانی کے بہاؤ کو ڈرامائی طور پر کم کر دیا ہے، جس سے زراعت میں شدید خلل پڑ رہا ہے اور مسلسل اقتصادی چیلنجز کے شکار دونوں ممالک کومعاشی بدحالی کے خطرات لاحق ہیں۔

عرب ممالک  عراق  اور شام  دونوں  کے درمیان 600 کلومیٹر (370 میل) غیر محفوظ صحرائی سرحد مشترک ہے جہاں آئی ایس کی شکست کے برسوں بعد بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

ک م/ ا ب ا(اے ایف پی، اے پی)