1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'سی سیکشن‘ نجی ہسپتالوں کا منافع بخش کاروبار

24 مارچ 2024

خیبر پختونخوا حکومت نے یکم رمضان سے صحت کارڈ بحال کر دیا ہے۔ حالیہ اسکیم کے مطابق اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرکاری اخراجات پر زچگی کی سہولت میسر نہیں ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4drlw
Pakistan Mütter mit Babys
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Sajid Hussain

 

گزشتہ ہفتے میڈیا سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت قاسم علی شاہ کا کہنا تھا، ”صحت کارڈ پر پرائیویٹ ہسپتالوں میں غیر ضروریسی سیکشنہوئے۔ ہمیں ایسے کیسز کی روک تھام کرنی ہے۔ اس سے اوور بلنگ ہو رہی تھی اور دوسری جانب مریض کی صحت پر اثر پڑ رہا تھا۔"

زچگی کے دوران نجی ہسپتالوں میں خواتین کے غیر ضروری سی سیکشن (جسے عرف میں بڑا آپریشن کہا جاتا ہے) کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں۔ پنجاب میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔

پنجاب میں صورتحال 

پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی (پی ایچ آئی ایم سی) نے اپنے پینل پر شامل سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے اعداد و شمار حال ہی میں جاری کیے۔ ان کے مطابق 2016ء سے جنوری 2024ء کے دوران  پنجاب میں چھ لاکھ اڑسٹھ ہزار سے زائد سی سیکشن آپریشن کیے گئے جن میں تقریباً پانچ لاکھ 25 ہزار 619 نجی ہسپتالوں میں سر انجام دیے گئے۔ 

جبکہ اس دوران پنجاب میں نارمل ڈیلیوری کے کل کیسز دو لاکھ دس ہزار 124 تھے، جن میں نجی ہسپتالوں کا حصہ محض سڑسٹھ ہزار پانچ سو تک محدود رہا۔ 

یعنی نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے 67 فیصد بچے سرکاری ہسپتالوں میں اور 33 فیصد پرائیوٹ کلینکس میں پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن سی سیکشن آپریشن میں صورت حال بالکل اس کے برعکس ہو جاتی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں محض 22 فیصد بڑے آپریشن جبکہ نجی کلینکس میں 78 فیصد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ 

سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے درمیان سی سیکشن آپریشن کا اتنا نمایاں فرق بہت سے سوالات اٹھاتا ہے اور ماہرین اس معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کیا ڈاکٹر مالی مفادات کے لیے غیر ضروری سی سیکشن آپریشن کر رہے ہیں؟

پنجاب کی نگران حکومت میں بطور وزیر صحت ذمہ داریاں نبھانے والے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پرائیوٹ ہسپتال مالی مفادات کے لیے بلا ضرورت سی سیکشن آپریشن کرتے رہے ہیں۔ یہ خواتین کی مجبوری سے مالی فائدہ سمیٹنے کی ایک بدترین مثال ہے۔"

’بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں‘

ڈاکٹر عائشہ باجوہ فیصل آباد الائیڈ ہسپتال اور نجی کلینک دونوں کے زچہ و بچہ مراکز میں کام کا تجربہ شیئر کرتی ہیں۔ وہ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ” اگر جڑواں بچے ہوں یا ماں کے پیٹ میں بچہ الٹا ہو تو ایسی غیر معمولی صورتحال میں ڈاکٹر پہلے سے سی سیکشن کا ذہن بنا لیتا ہے جو قابل فہم ہے۔ لیکن پرائیویٹ ہسپتال میں زچہ پہنچی نہیں اور ڈاکٹر سی سیکشن کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک درمیانے درجے کے نجی کلینک میں سی سیکشن ڈیلیوری کی مد میں تقریباً چالیس سے پچاس ہزار لے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔"

ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں، ”صحت کارڈ کے بعد اس رجحان میں بہت اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر مریض کو اس لیے آسانی سے قائل کر لیتے ہیں کہ پیسہ سرکاری کھاتے سے ملنا ہے۔ بیچارہ مریض یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی صحت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کلینکس کھول کر اور سی سیکشن کی پیچیدگیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ عمل سرانجام دیا جاتا ہے۔"

کیا خواتین خود بھی سی سیکشن کو ترجیح دینے لگی ہیں؟ 

 گائنا کولوجسٹ اور سماجی کارکن ڈاکٹر زری اشرف اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا استحصال ہوتا ہے اور خواتین کو غلط معلومات فراہم کر کے ان کی سی سیکشن سرجری کر دی جاتی ہے۔ مگر وہ دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ 

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اب خواتین خود بھی سی سیکشن کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے ذہن بنا چکی ہوتی ہیں کہ ہم نے سی سیکشن ہی کرانا ہے۔ یہ ان کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ وہ تکلیف سے بچنا چاہتی ہیں۔" 

صحت کارڈ پر پرائیویٹ ہسپتالوں میں زچگی کی سہولت کا خاتمہ، بہتر متبادل؟

خیال رہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نجی ہسپتالوں کو 2016ء سے جنوری 2024ء تک تمام سیزرین اور نارمل ڈیلیوری کی مد میں 16.36 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔

اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ محقق ڈاکٹر اکرام اللہ کہتے ہیں، ''سرکاری ہسپتالوں میں مریض کو رجسٹریشن اور چیک اپ کے لیے طویل انتظار سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر سرکاری ہسپتالوں کے ایک ایک وارڈ میں بیک وقت درجنوں مریض ایک ساتھ لیٹے ہوتے ہیں۔ وہاں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی، تکلیف دہ آوازیں سنائی دیتی ہیں، ناقابلِ برداشت ماحول ہوتا ہے۔ یہ ماحول بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے زچہ بچہ سینٹر قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔"

ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں، ”ہم نے گزشتہ برس تحقیقات کروائیں جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ نجی ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر زچگی کی سہولت ختم کر دینی چاہیے۔ کیونکہ اس کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ پھر اوور بلنگ کا مسئلہ تھا جس سے صحت کا پورا شعبہ متاثر ہو رہا تھا۔"