1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکڑتے ساحل سمندر اور ریتیلے ٹیلے ماحول کے توازن کے لیے خطرہ

28 جنوری 2024

سمندروں کی سطح میں اضافے اور ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات کے باعث ساحل اور ریت کے ٹیلے سکڑ رہے ہیں۔ نیچر سائنس جنرل میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ساحل سے اوسطاَ 390 میٹر کے فاصلے پر کوئی ہوٹل یا سڑک موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/4blHS
Indien | Lakshadweep Inseln
تصویر: Michael Runkel/robertharding/picture alliance

ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلے نا صرف ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم  کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ  کئی سمندری حیات کا قدرتی مسکن ہیں اور ان انواع کی بقا کے لیے نا گزیر ہیں۔ لیکن ساحل کے قریب شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادی، تعمیراتی کام، اور سطح سمندر میں اضافے  کی وجہ سے ساحل اور ریت کے ٹیلے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔

نیچر سائنس جنرل میں رواں ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ساحل سمندر اور ٹیلے بڑھتے ہوئے انفراسٹرکچر اور تعمیرات کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔  رائل نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ فار سی ریسرچ کے محققین نے دنیا بھر میں ساحلوں کے قریب تعمیرات اور ریت کے ٹیلوں کے تجزیے سے معلوم کیا ہے کہ اوسطاَ ساحل کے قریب ترین عمارت یا پکی سڑک صرف 390 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

تحقیق کا پس منظر کیا ہے؟

رائل انسٹیٹیوٹ فار سی ریسرچ سے منسلک سائنسدان اور تحقیق کی مصنف اوا ایم لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انسانی زندگی میں سمندر اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ دنیا بھر میں تقریبا 40 فیصد آبادی ساحلوں سے 100 کلومیٹر کے اندر رہتی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اوا لانسو بتاتی ہیں کہ انسانی ترقی سے سمندریایکو سسٹم تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر سطح سمندر اور شدید موسمی واقعات میں اضافے، شدید  گرمی کی لہریں، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ساحلی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔

 لانسو کہتی ہیں کہ ان عالمی اثرات کی بنیادی وجوہات مقامی عوامل ہی جن میں زمینی و سمندری آلودگی، سمندری کٹاؤ اور سیلینائزیشن شامل ہیں۔ مگر ان میں سب سے بڑا خطرہ ساحلوں کے قریب تیزی سے ہوتا تعمیراتی کام اور انفراسٹرکچر کی بھرمار ہے۔

لانسو کے مطابق سمندری ایکو سسٹم متنوع ہے جس میں ریت کے ٹیلے، مرجان کی چٹانیں یا فائٹو پلانکٹن ہر شے کی اہمیت یکساں ہے۔ لیکن انسان کا تعمیر کردہ  انفراسٹرکچر ساحلی ماحولیاتی نظام کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دستیاب جگہ کو محدود کر رہا ہے۔ ریتیلے ساحلوں پر سمندری حیات کے قدرتی مسکن جگہ کی کمی کے باعث تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ سطح سمندر میں تیزی سے اضافے سے کئی سمندری حیات بقا کے خدشے سے دوچار ہیں۔

 تحقیق سے کون سے نئے انکشافات ہوئے ہیں؟

اوا لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے پہلے سے ریکارڈ شدہ ڈیٹا کو اوپن سٹریٹ میپ ڈیٹا کے ساتھ ملا کر ساحلی علاقوں کا ایک نیا نقشہ تیار کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ساحلی پٹی کے قریب ترین پکی سڑک یا رہائشی عمارت تک فاصلے کا ڈیٹا حاصل کیا۔ لانسو کی ٹیم نے دنیا بھر میں ریتیلے ساحلوں کے ساتھ ہر ایک کلومیٹر پر اس طرح کی پیمائش کر کے نیا ڈیٹا سیٹ بھی حاصل کیا۔

اوا لانسو بتاتی ہیں کہ اس نئے اور پرانے ڈیٹا سیٹ کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ انفرا سٹرکچر ساحل سمندر کے اتنا قریب ہے کہ سیاح اوسطاَ صرف 390 میٹر کے فاصلے پر کوئی ہوٹل یا سڑک تلاش کر سکتے ہیں۔  

وہ کہتی ہیں کہ بظاہر یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ آپ ساحلوں کی سیر پر جائیں اور قریب ہی رہائش یا ٹرانسپورٹ مل جائے۔ لیکن اس کا بھیانک ترین پہلو یہ ہے عالمی ریتیلے ساحلوں کے تقریبا 30 فیصد سے زیادہ حصے پر اب انفراسٹرکچر ہے اور محض 100 میٹر حصہ خالی رہ گیا ہے۔ یعنی نئی تعمیرات براہ راست ساحلوں ہورہی ہیں۔

لانسو کے مطابق جاپان، جنوبی کوریا، لبنان، مصر، ترکی، اٹلی، سپین اور امریکہ کے ساحل تیزی سے بڑھتے انفرا سٹرکچر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں سنہ 2100 تک سطح سمندر میں اضافے سے  ساحلوں کے قریب عمارتوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان فاصلہ 23 سے 30 فیصد مزید گھٹ جانے کا امکان ہے۔

ریت کے ٹیلے ا تنی اہمیت کے حامل کیوں ہیں؟

ایوا لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں ایک تہائی ساحلی پٹی ریتیلے ساحلوں پر مشتمل ہے۔ ان ساحلی علاقوں میں زمین مختلف قسم کی ہے۔ جن میں ریت کے ٹیلے، پتھریلی چٹانیں، تلچھٹ والی زمین وغیرہ شامل ہیں۔ 

لانسوکے مطابق انسانی زندگی میں ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلوں کی اہمیت بنیادی ہے۔ یہ سیلاب کو روکنے کے علاوہ پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سمندری پودوں اور جانوروں کی کئی انواع کا قدرتی مسکن بھی ہیں۔ لیکن ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات اور سطح سمندر میں اضافے سے ریت کے ٹیلے سکڑ رہے ہیں۔  

پاکستانی ساحلوں کی صورتحال کیا ہے؟

انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کراچی کی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ 4 دہائیوں میں  کراچی کی ساحلی پٹی پر تیزی سے تعمیرات ہوئی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ گزری کریک کا سمندری راستہ جو 1986 تک 14 مربع کلومیٹر پر محیط تھا اب سکڑ کر محض 11 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزری کریک کراچی اور گرد و نواح میں واقع  مینگروز کے جنگلات اور سمندری ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔

 اس تحقیق کے مطابق ساحل کے قریب تعمیرات کے جنون سے سمندری ایکو سسٹم اور مقامی افراد کا ذریعہ معاش شدید متاثر ہوا ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابسطہ تھے۔ مگر ساحلی پٹی پر مینگروز کے جنگلات متاثر ہونے سے مچھلیوں کی افزائش گاہیں تباہ ہو گئی ہیں۔

 گزری کریک اور ملحقہ علاقے جو کبھی مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے اب وہاں جیلی فش کا راج ہے اور ماہی گیر دیگر پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر رہائشی سکیموں کی تعمیر سے مون سون سیزن میں سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟

رائل نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ آف سی ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ ریتیلے ساحلوں کے قریب وہ علاقے جہاں ساحل تیزی سے سکڑ رہے ہیں انھیں "پروٹیکٹڈ ایریا" قرار دے کر وہاں ہر طرح کی تعمیرات پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی  دیگر علاقوں کے لیے تعمیرات کی حد مقرر کی جائے۔ یہ فاصلہ پروٹیکٹڈ ایریاز سے چار گنا زیادہ ہونا چاہئے تاکہ سطح سمندر میں اضافے سے مستقبل میں ان علاقوں میں ساحل بلکل غائب نہ ہو جائیں۔

اوا لانسو  کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں اب تک ریتیلے ساحلوں کے قریب صرف 16 فیصد علاقوں کو پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا گیا ہے۔ اس شرح کو تیزی سے بڑھانے کے علاوہ ساحلی علاقوں میں تعمیرات اور آبادکاری سے متعلق قوانین نافذ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔