1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
3 فروری 2023

بھارت نے جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں پر نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے عالمی بینک کی جانب سے ثالثی عدالت اور ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4N3JG
Indien Pakistan Kaschmir Flusstal Zanskar und Indus River
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Karel

نئی دہلی نے جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور بھارت کے رتلے پن بجلی منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ اختلافات کو دور کرنے کے حوالے سے عالمی بینک کے بعض فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کی جانب سے ثالثی عدالت اور ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے فیصلے درست نہیں ہیں۔

آبی تنازعات: سندھ طاس معاہدہ اور ماحولیاتی نکات پر بحث

واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان نے برسوں کی بات چیت کے بعد ستمبر سن 1960 میں سندھ  طاس آبی معاہدہ کیا تھا۔  اس معاہدے کا ایک فریق عالمی بینک بھی ہے اور اس کے بھی اس معاہدے پر دستخط ہیں۔

پانی کا مسئلہ، عالمی بینک کردار ادا کرے، قریشی

گزشتہ ہفتے ہی مودی حکومت نے آبی تنازعے سے متعلق سن 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کے لیے پاکستان کو ایک نوٹس بھی بھیجا تھا۔

’بھارت کے ساتھ مشروط مذاکرات قبول نہیں‘، پاکستان

بھارت عالمی بینک کے فیصلے سے ناراض کیوں ہے؟

بھارت نے جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہی کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کیے ہیں اور انہیں کے حوالے سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس پر فیصلے کے لیے پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا تھا اور عالمی بینک کا فیصلہ ایک حد پاکستانی موقف کے حق میں رہا ہے۔

بعض اختلافی مسائل کے حل کے لیے ورلڈ بینک نے دو مختلف طریقہ کار کے تحت ثالثی عدالت اور ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کا فیصلہ کیا تھا اور بھارت نے اسی پر سوال اٹھاتے ہوئے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے جمعرات کے روز کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ وہ (ورلڈ بینک) ہمارے لیے اس معاہدے کی تشریح کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان کا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے بارے میں ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اس میں احتیاط کے ساتھ ایک منظم طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے۔''

Indien Ladakh Indus-Fluss
سندھ طاس آبی معاہدے میں عالمی بینک کا کردار طریقہ کار فراہم کرنا ہے اور سرحد پار کے دریاؤں سے متعلق بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی صورت میں وہ غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت کے سربراہ کا تقرر کرتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. Vatsyayana

سندھ طاس آبی معاہدے میں عالمی بینک کا کردار طریقہ کار فراہم کرنا ہے اور سرحد پار کے دریاؤں سے متعلق بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی صورت میں وہ غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت کے سربراہ کا تقرر کرتا ہے۔

تاہم بھارت اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے ایک ہی وقت میں دو طرح کے طریقہ کار اپنانے کو معاہدے میں طے شدہ نکات کے طریقہ کار کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ اگر یہ دونوں میکانزم متضاد فیصلوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو کیا ہو گا۔

اریندم باغچی کا کہنا تھا کہ تقریباً پانچ چھ برس پہلے، خود عالمی بینک نے دو متوازی طریقہ کار ہونے کے مسئلے کو تسلیم کیا تھا۔ ''ہماری تشریح اور تشخیص یہ ہے کہ یہ عمل معاہدے کی دفعات کے مطابق نہیں ہے اور اس لیے ہم احتیاطی منظم طریقہ کار کی بات کر رہے ہیں۔''

بھارتی ترجمان نے ورلڈ بینک کے فیصلوں پر اعتراض کیا تاہم ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا کہ اس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''مجھے نہیں معلوم کہ عالمی بینک نے اس پر اپنا موقف تبدیل کیا ہے یا نہیں۔''

واضح رہے کہ اس معاملے میں بھارت نے عالمی بینک کی جانب سے مقرر کردہ ثالثی عدالت کے ساتھ اب تک کوئی تعاون نہیں کیا ہے۔

دونوں ممالک کا موقف کیا ہے؟

پاکستان نے سن 2015 میں بھارت کے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر اپنے تکنیکی اعتراضات کی جانچ کے لیے کو طلب کرنے کی بات کہی تھی۔

بھارت کا دعوی ہے کہ پہلے پاکستان نے ایک غیر جانبدار ماہر کے تعین کا مطالبہ کیا تھا تاہم سن 2016 میں اسلام آباد نے یکطرفہ طور پر اس

 درخواست کو واپس لے لیا اور یہ تجویز پیش کی کہ ایک ثالثی عدالت اس کے اعتراضات پر فیصلہ کرے۔

دوسری جانب بھارت نے بھی ایک الگ درخواست دی تھی کہ معاملہ کسی غیر جانبدار ماہر کے پاس بھیج دیا جائے۔ عالمی بینک نے دونوں کی باتوں پر عمل کیا اور بیک وقت دو طرفہ عمل سے ایک دوسرے کے برعکس یا متضاد نتائج  آنے کا امکان ہے۔

سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے لیے پاکستان کو نوٹس

انہیں اعتراضات کی بنیاد پر تقریباً ایک ہفتے قبل ہی بھارت نے سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے میں ترامیم کے لیے پاکستان کو ایک نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے اس نوٹس کے ذریعے پاکستان کو آئندہ 90 دنوں کے اندر بین الحکومتی مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ہی معاہدے کی خلاف ورزی کو درست کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عمل کے ذریعے گزشتہ 62 برسوں کے دوران جو سبق سیکھے گئے ہیں، اس کو بھی سندھ طاس معاہدے میں شامل کر کے اسے اپ ڈیٹ کرنا ہے۔

 بھارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ اسے ابھی تک پاکستان کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں ملا ہے۔  ان کا کہنا تھا، ''مجھے ابھی تک پاکستان کی طرف سے کسی رد عمل کا علم نہیں ہے۔ میں ورلڈ بینک کے بھی کسی رد عمل یا تبصرے سے آگاہ نہیں ہوں۔''

دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے