1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سفید سونا‘ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کتنا ضروری؟

19 مارچ 2023

سفید سونا کہلانے والی دھات لیتھیم الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس وقت اس دھات کی عالمی سطح ہر قلت ہے۔ اس کی کان کنی اور تیاری کتنی پائیدار ہے؟

https://p.dw.com/p/4Ogxf
Symbolbild Lithium
تصویر: Robert Michael/dpa/picture alliance

گو کہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے لیتھیم کی بہت بڑی مقدار درکار نہیں ہوتی۔ تیس سو کلوگرام کی بیٹری (پچاس کلو واٹ آور) کے لیے صرف آٹھ کلوگرام لیتھیم درکار ہوتی ہے۔

کیا الیکٹرک بسیں پاکستان میں فضائی آلودگی کم کر سکتی ہیں؟

یورپی یونین میں 2035ء سے صرف الیکٹرک گاڑیاں استعمال ہوں گی

تاہم الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تیزی کے ساتھ ہی بیٹریوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس دھات کی مانگ میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے اور اس لیے اس دھات کی کان کنی کے بڑے بڑے پروجیکٹس شروع ہو چکے ہیں۔ لیتھیم کو زمین سے نکالنا ایک طویل المدتی کام ہوتا ہے اور کئی معنوں میں متنازعہ بھی۔

کھلے دھاتوں والی کانوں کے سبب بہت سے مقامات پر اس دھات کی کان کنی کے خلاف مظاہرے بھی دیکھے گئے ہیں۔ جب کہ ان سے قدرتی منظر کو نقصان پہنچنے کے علاوہ پانی کی سپلائی بھی متاثر ہوتی ہے۔

قدرتی معدنیات کے جرمن ادارے ڈی ای آر اے کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں تینتالیس میٹرک ٹن لیتھم عالمی سطح پر حاصل کی گئی تھی جب کہ دو ہزار بائیس میں کان کنی کے ذریعے حاصل کردہ لیتھیم کی مقدار تین گنا بڑھ کر ایک لاکھ تیس ہزار میٹرک ٹن ہو چکی تھی۔ اس جرمن ادارے کے اندازے کے مطابق دو ہزار تیس تک یہ مقدار مزید کئی گنا بڑھ چکی ہو گی۔

اس ادارے کے لیتھیم کے شعبے کے ماہر میشائیل شمڈٹ کے مطابق سوال اب یہ ہے کہ بیٹریوں کی تیاری کے لیےلیتھیم کی یہ کان کن کتنی پائیدار ہے۔

لیتھیم کو عام زبان میں 'سفید سونا‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کا سفید رنگ اور مارکیٹ ویلیو ہے۔ یہ ہلکی دھات زمین کے قشتر میں ہر جگہ موجود ہے۔ محققین کے مطابق زمینی سمندروں میں اس ہلکی دھات کی موجود مقدار دو سو ارب ٹن کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں اور نمکین جھیلوں میں یہ مقدار اٹھانوے ملین میٹرک ٹن ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس میں سے چھبیس ملین ٹن وہ مقدار ہے، جو دراصل حاصل کی جا سکتی ہے اور جو اگلی کئی دہائیوں میں حاصل کی جائے گی۔

سن دو ہزار بائیس میں سنتالیس فیصد لیتھیم آسٹریلیا کی کھلے دھانے والی کانوں سے حاصل کی گئی، جب کہ پینتیس فیصد جنوبی امریکی کی نمکین جھیلوں، پندرہ فیصد چین اور ایک فیصد سے کچھ کم زمبابوے، پرتگال اور شمالی امریکہ سے حاصل ہوئی۔

نمکین جھیلوں سے حصول

دنیا میں لیتھیم کے سب سے بڑے ذخائر بولیویا، ارجٹائن اور چلی کی نمکین جھیلوں کی تہہ میں دریافت کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قریب بیالیس ملین ٹن ہیں۔ امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق اس میں سے پنتالیس ہزار ٹن سن دو ہزار بائیس میں نکالا گیا۔

سویڈش ماحولیاتی ریسرچ انسٹیوٹ کے ایک مطالعے کے مطابق نمکین پانیوں کی تہوں سے بڑی مقدار میں یہ دھات نکلتی ہے اور یہاں سے لیتھیم کاربونیٹ پیدا ہوتا ہے۔ یہی مادہ بیٹری کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ یہاں سے لیتھیم کے حصول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی نسبتاﹰ کم ہوتا ہے۔

تاہم اس طرح سے لیتھیم کا حصول پینے کے پانی کو متاثر کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی جھیلوں کی تہوں سے یہ مادہ پمپ کرنے سے زمین زمین پانی کی سطح بھی گر سکتی ہے۔

پتھروں سے لیتھیم کا حصول

پتھروں میں لیتھیم کے سب سے بڑے زخائر آسٹریلیا کی کھلے دھانوں کی کانوں میں ہیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ مقدار چھ اعشاریہ دو ملین ٹن ہے، جس میں سے دوہزار بائیس میں اکسٹھ ہزار ٹن نکالا گیا۔

بھارت میں الیکٹرک موٹر سائیکل چل سکے گی کیا؟

لیتھیم کے حصول کے لیے کان میں ڈرلنگ کی جاتی ہے اور دھماکے بھی۔ پھر یہ خام ٹکڑے پلانٹ میں ڈالے جاتے ہیں، جہاں لیتھیم کو دیگر کیمیائی مادوں سے الگ کیا جاتا ہے۔

یہاں سے لیتھیم چین روانہ کی جاتی ہے، جہاں اسے مزید خالص بنایا جاتا ہے اور اس سے بیٹری سیل بنائے جاتے ہیں۔ ایک امریکی ادارے انگونن نیشنل لیبارٹری کے مطابق اس انداز سے لیتھیم کے حصول کے لیے نمکین جھیلوں کے مقابلے میں تین گنا زائد توانائی درکار ہوتی ہے۔

ری سائیکلنگ سے لیتھیم کی بچت

مستقبل میں لیتھیم سپلائی گیپ کو ختم کرنے کے لیے ری سائیکلنگ پلانٹس سے بہ طور ضمنی پروڈکٹ حاصل کی جائے گی، تاہم فی الحال اس کا اس طرح سے حصول اقتصادی طور پر منافع بخش نہیں۔ مستقبل میں لیتھیم پرانی بیٹریوں وغیرہ سے حاصل کی جائے گی جب کہ یوں لیتھیم کی طلب کو پورا کرنے میں ری سائیکلنگ بھی اپنا حصہ ملاتی نظر آئے گی۔ تاہم فی الحال ایک بیٹری میں لیتھیم کی مقدار اتنی قلیل ہے کہ یہاں سے اسے حاصل کرنا ایک مہنگا سودا ہے۔

گیرو روئٹر (ع ت، ک م)