1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرگودھا کی پہچان 'کینو' دراصل امریکی پھل ہے

25 فروری 2024

پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع سرگودھا کا ذکر آتے ہی خیال کینو کی طرف جاتا ہے، دونوں گویا لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کینو پہلی مرتبہ سرگودھا میں نہیں بلکہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں کاشت کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4cmio
پاکستانی کینو دبئی، روس، ملیشیا، بنگلہ دیش اور کینیڈا جیسے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
پاکستانی کینو دبئی، روس، ملیشیا، بنگلہ دیش اور کینیڈا جیسے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔تصویر: Faruq Azam/DW

پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کیے جانے والا یہ پھل آج فیصل آباد، منڈی بہاؤالّدین، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال، خانیوال اور ملتان میں بھی پیدا ہوتا ہے مگر ذائقے کے اعتبار سے سرگودھا کے میٹھے اور رسیلے کینو کا جواب نہیں۔

پنجاب میں محکمہ زراعت کے شعبہ توسیع باغبانی کے ترجمان ڈاکٹر امجد حسین بتاتے ہیں،"پاکستان میں سٹرس یا تُرشاوہ پھلوں کی مجموعی سالانہ پیداوار تقریباً پچیس لاکھ ٹن ہے جس میں سب سے بڑا حصہ کینو کا ہے۔"

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ترشاوہ پھل پانچ لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کیے جاتے ہیں جن میں سے چار لاکھ ایکڑ پر محض کینو ہوتا ہے اور اس میں سرگودھا کا حصہ سوا دو لاکھ ایکڑ ہے۔ یوں صرف ذائقے یا معیار ہی نہیں بلکہ مقدار میں بھی سرگودھا سب سے آگے ہے۔"

کینو سرگودھا کی پہچان کیسے بنا؟

کینو کا امریکہ سے لائل پور اور پھر سرگودھا تک کے سفر کے متعلق سرگودھا یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف ہارٹیکلچر سے وابستہ ڈاکٹر اظہر علی کہتے ہیں،"یہ دراصل سٹرس یا ترشاوہ پھلوں کا خاندان ہے جس میں لیموں سے لے کر مالٹا، سنگترہ، فروٹر اور کینو وغیرہ سب شامل ہیں۔ جنگلی پھل عموماً بہت سخت اور بے رس ہوتے ہیں۔ انسان صدیوں سے پیوندکاری کرتے اور مصنوعی طریقے سے انہیں خوش ذائقہ بناتے آیا ہے۔ 1940 کی دہائی میں امریکہ کے زرعی سائنسدان ایس بی فراسٹ نے پیوندکاری سے کینو تیار کیا اور پہلی بار اس کی فصل کیلفورنیا میں تیار کی گئی جو بہت زبردست تھی۔ آج بھی کیلفورنیا دنیا بھر میں پھلوں کے لیے مشہور ہے۔"

پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت

اظہر علی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا امریکہ کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ نے اس کے پودے مختلف ممالک کو بطور تحفہ پیش کیے جن میں متحدہ ہندوستان کے شہر لائل پور کا زرعی کالج بھی شامل تھا، جسے اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کہا جاتا ہے۔ لائل پور کالج نے اس کی ابتدائی فصل تیار کی اور پھر آس پاس کے دیگر اضلاع میں اسے کاشت کیا۔ تب سرگودھا کی مٹی اسے سب سے زیادہ راس آئی اور آج یہ حال ہے کہ کینو اور سرگودھا لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔

ماہر لسانیات اور محقق ظفر سید نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا،"کینو کا لفظ بھی مقامی نہیں بلکہ اس کے پودے کی طرح یہ بھی برآمد کیا گیا اور ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا۔ دراصل ایس بی فراسٹ نے جن دو پھلوں کی پیوند کاری سے کینو تیار کیا ان کے نام تھے: کنگ اور ویلولیو۔ " اس پھل کا نام انہیں دونوں الفاظ سے لیا گیا۔ کینو کے نام میں 'کن' کے حروف 'کنگ' سے جبکہ 'نو' کے حروف 'ویلولیو' سے لیے گئے ہیں۔ اب یہ ہمارے ہاں اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسے استعمال کرتے ہوئے گمان ہی نہیں گزرتا کہ یہ اردو یا پنجابی زبان کا نہیں بلکہ انگریزی کا لفظ ہے۔

امریکہ کے زرعی سائنسدان ایس بی فراسٹ نے جن دو پھلوں کی پیوند کاری سے کینو تیار کیا ان کے نام تھے کنگ اور ویلولیو۔ اس پھل کا نام انہیں دونوں الفاظ سے لیا گیا ہے
امریکہ کے زرعی سائنسدان ایس بی فراسٹ نے جن دو پھلوں کی پیوند کاری سے کینو تیار کیا ان کے نام تھے کنگ اور ویلولیو۔ اس پھل کا نام انہیں دونوں الفاظ سے لیا گیا ہےتصویر: Faruq Azam/DW

سرگودھا کے کینو کی خاص بات کیا ہے؟

پاکستان فروٹ جرنل کے مطابق اٹھانوے فیصد سے زیادہ ترش پھل پنجاب میں کاشت کیا جاتا ہے جس میں ستر فیصد حصہ کینو کا ہے اور اس کا سب سے بڑا مرکز سرگودھا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سرگودھا کینو کا مرکز کیوں بنا اور یہاں کے کینو کی خاص بات کیا ہے؟ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مقامی زمیندار اور زرعی سائنسدان میاں امجد اقبال کہتے ہیں،"اصل چیز مٹھاس اور کھٹے پن کا امتزاج ہے۔ یہ دونوں ذائقے بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہیں لیکن کینو میں یک جا ہو جاتے ہیں اور یہ حسن امتزاج سرگودھا کے کینو جیسا کہیں نہیں۔ پھر یہ کہ کینو کی جلد جتنی پتلی ہو اس کے اندر رس اتنا زیادہ ہوتا ہے اور سرگودھا کے کینو کی یہ خصوصیت بھی باقی جگہوں سے بڑھ کر ہے۔ "

جرمن کمپنی کی مشاورت سے :پاکستان میں جدید کاشتکاری

ان کا مزید کہنا تھا،"میں نے ابھی اپنے کھیتوں میں سٹرس فروٹ کی تقریباً بیالیس اقسام لگا رکھی ہیں جو سب پھل دے رہی ہیں۔ ایسا تنوع سرگودھا کے علاوہ شاید ہی کسی جگہ ہو کہ ایک ہی باغ میں ایک ہی پھل کی اتنی ورائٹی موجود ہے۔"

ایک عمومی اندازے کے مطابق سرگودھا میں سٹرس فروٹ کی ساٹھ سے زیادہ قسمیں پائی جاتی ہیں۔ سرگودھا کے گاؤں ماڑی لک سے نوجوان زمیندار مہر دانش نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا،"یہاں جس کے پاس ایک ایکڑبھی زمین ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کینو کا ہی باغ لگائے۔ ہمیں بہت فخر محسوس ہوتا کہ یہاں کا پھل نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔"

پاکستان میں چار لاکھ ایکڑ پر کینو ہوتا ہے اور اس میں سرگودھا کا حصہ سوا دو لاکھ ایکڑ ہے
پاکستان میں چار لاکھ ایکڑ پر کینو ہوتا ہے اور اس میں سرگودھا کا حصہ سوا دو لاکھ ایکڑ ہےتصویر: Faruq Azam/DW

کینو کا پودے سے پھل بننے اور برآمدات کا سفر

ایک ننھے پودے سے برآمدات تک، کینو کن مراحل سے گزرتا ہے امجد اقبال اس بارے میں کہتے ہیں،"ایک بار باغ لگانے کے بعد صبر آزما انتظار شروع ہوتا ہے کیونکہ پہلی فصل پانچ سال بعد آتی ہے۔ اپریل میں پھول آتے ہیں جو آہستہ آہستہ پھل بنتے اور چھ سات ماہ بعد تیار ہو جاتے ہیں۔ کئی درخت اندر سوکھ جاتے ہیں جنہیں "ناغہ" کہتے ہیں، ان کی جگہ نئے پودے لگائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ایک پودا ایک سیزن میں پندرہ سو سے لے کر دو ہزار دانے تک کینو دیتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک درخت نے ایک سیزن میں اچھا پھل دیا اگلے میں نہیں دیا۔ ایک درخت کی اوسط عمر بیس سے پچیس سال ہوتی ہے۔"

ٹماٹر: پاک بھارت کشیدگی کی زد میں

امجد اقبال کے مطابق فصل تیاری کے بعد دو طرح کے ٹھیکے ہوتے ہیں۔ کسی فیکٹری کے ساتھ اور مقامی منڈیوں کے آڑھتیوں کے ساتھ۔ بعض لوگ کھڑا باغ بیچ دیتے ہیں۔ بعض خود مزدور لگا کر پھل اترواتے اور پھر بیچتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سرگودھا میں پھلوں کوپراسس کرنے والے تقریباً تین سو سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے ہیں۔ جہاں ہر سیزن میں فی کارخانہ اوسطاً سو کے قریب ورکر کام کرتے ہیں۔ باغ سے اتارے ہوئے پھلوں کی صحت اور سائز کے مطابق اسے اے یا بی کیٹیگری میں تقسیم کر لیا جاتا ہے۔ بی کیٹیگری ملک میں فروخت کے لیے رکھی جاتی ہے جبکہ اے کیٹیگری برآمد کی جاتی ہے۔

پاکستان فروٹ جرنل کے مطابق پاکستانی کینو دبئی، روس، ملیشیا، بنگلہ دیش اور کینیڈا جیسے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

مرغیوں کی طاقت اور کینو کی پیداوار