1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

امن کے بغیر چین کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے، بھارت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
11 نومبر 2022

بھارت نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آ سکتے جب تک کہ سرحدی علاقوں میں امن نہ ہو۔ سرحد پر کشیدگی کے سبب دونوں میں کافی دنوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/4JN5L
Kaschmir - S. Jaishankar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Dharapak

بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بار پھر یہ بات کھل کر تسلیم کی ہے کہ چین اور بھارت کے تعلقات  معمول کے مطابق پٹری پر نہیں آ رہے ہیں اور اس میں بہتری اسی وقت ممکن ہے جب سرحدی علاقوں میں جاری کشیدگی پر قابو پا لیا جائے۔

چینی جاسوسی جہاز کی وجہ سے بھارت کو میزائل تجربہ ملتوی کرنا پڑ سکتا ہے

 بھارتی وزیر خارجہ نے تاہم کہا کہ طویل گفت و شنید کے بعد ٹکراؤ کی پوزیشن میں کچھ بہتری آئی ہے اور بھارت کو امید ہے کہ ایک دن چین حالات کو ضرور سمجھے گا اور وہ سرحد پر امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ وہ نئی دہلی میں اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کی لیڈر شپ سمٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ 

امریکہ اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقوں پر چین کا اعتراض

 بھارتی وزیر خارجہ نے کیا باتیں کہیں؟

مسٹر جے شنکر کا کہنا تھا، ''میں کہہ رہا ہوں کہ جب تک سرحدی علاقوں میں امن و سکون نہیں ہے، جب تک معاہدوں کی پابندی نہیں کی جاتی اور یکطرفہ طور پر صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو روکا نہیں جاتا، اس وقت تک تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں اور نہ ہی یہ معمول مطابق ہیں۔''

پاکستان ایک مختلف 'آئی ٹی‘ کا ایکسپرٹ ہے، بھارتی وزیر خارجہ

 وادی گلوان میں چین اور بھارتی فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے، بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ سن 2020 میں جو بھی کچھ ہوا وہ ''ایک فریق کی کوشش تھی، اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کون فریق ہے، یہ معاہدوں اور فریقین کے درمیان ہونے والی مفاہمتوں سے الگ ہٹنے کا معاملہ ہے اور یہی مرکزی مسئلہ ہے۔''

واضح رہے کہ جون 2020 میں وادی گلوان میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک خوانی جھڑپ ہوئی تھی، جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں چین نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اس کے بھی چند فوجی ہلاک ہوئے۔  

ایک سوال کے جواب میں جے شنکر نے یہ بات تسلیم کی کہ اس واقعے کے بعد چین کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے بعض مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے اور بعض معاملات کے حل میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، ''ہمارے درمیان کئی ٹکراؤ کے پوائنٹس تھے اور کچھ معاملات میں ہاں پیش رفت ہوئی ہے۔ ان ٹکراؤ کے پوائنٹس میں سے بعض پر تو فورسز بہت ہی خطرناک حد تک ایک دوسرے سے قریب تعینات تھیں۔ میرے خیال میں مساوی اور باہمی سلامتی کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ان میں سے کچھ مسائل پر کام کیا گیا ہے۔''

Sri Lanka |  BIMSTEC SUMMIT | Indiens Außenminister Subrahmanyam Jaishankar
بھارتی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ ایک دن چین کو اس بات کا احساس ہو گا کہ موجودہ صورتحال اس کے بھی مفاد میں نہیں ہےتصویر: Pradeep Dambarage/NurPhoto/IMAGO

ان کا مزید کہنا تھا، ''لیکن کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جن پر ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے یہ فطری بات ہے جو میں کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ ثابت قدم رہنا اور آگے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مشکل یا بہت پیچیدہ ہے، اور اس میں کچھ نہیں ہونے والا ہے۔''

بھارتی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ ایک دن چین کو اس بات کا احساس ہو گا کہ موجودہ صورتحال اس کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں اس پر قائم ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اس بات کو محسوس کیا جائے گا کہ تعلقات کی موجودہ حالت چین کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکومت مختلف پالیسیوں اور اعلانات کے لیے پس پردہ بہت کچھ کر بھی رہی ہے۔ ''میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حالت تعلقات کو نقصان پہنچائے بغیر جاری رہ سکتی ہے۔''

مئی 2020ء میں چین اور بھارت کے درمیانلائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) پر اسی جھیل سے فوجی کشیدگی کے آغاز ہوا تھا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ 15 جون 2020ء کی رات کو وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں چین کے بھی چند فوجی مارے گئے تھے۔

 بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔

پینگانگ جھیل کا حسن سرحدی کشیدگی کی زد میں