1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت مسترد

27 اکتوبر 2023

اسے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان، جو فی الحال جیل میں قید ہیں، کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں آج جمعے کو مسترد کردیں۔

https://p.dw.com/p/4Y5dR
عمران خان پر سرکاری راز افشا کرنے اور ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں
عمران خان پر سرکاری راز افشا کرنے اور ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیںتصویر: K. M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ان معاملات پر 16 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے آج جمعہ 27 اکتوبر کو فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواستیں مسترد کردیں۔

عمران خان پر سرکاری راز افشا کرنے اور ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ سائفر کیس میں خصوصی عدالت برائے آفیشیل سیکرٹ ایکٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی درخواست ضمانت پہلے ہی مسترد کردی تھی۔

عدالتوں میں عمران خان کے مقدمات مرکز نگاہ

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی سائفر کیس میں مقدمات کو روکنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔ اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس میں فردِ جرم کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کی تھی۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے آج 71 سالہ رہنما کی درخواست ضمانت بھی مسترد کردی۔ انہوں نے تاہم کہا کہ عمران خان کو" منصفانہ مقدمہ" فراہم کیا جائے گا۔

سائفر کیس میں عمران خان گذشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ انہیں 15اگست کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ ان کی پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 20اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سائفر کیس: عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے متعدد دفعات کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا اور ان کے خلاف فرد جرم عائد کیا تھا۔ لیکن دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ نے ان پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ ایک جھوٹا، من گھڑت کیس ہے، جو پوری طرح سے سیاسی انتقام کے لیے رچا گیا ہے۔ میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گا۔''

پی ٹی آئی کے سربراہ نے ان پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا، یہ ایک جھوٹا، من گھڑت کیس ہے، جو پوری طرح سے سیاسی انتقام کے لیے رچا گیا ہے
پی ٹی آئی کے سربراہ نے ان پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا، یہ ایک جھوٹا، من گھڑت کیس ہے، جو پوری طرح سے سیاسی انتقام کے لیے رچا گیا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

کیس کیا ہے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کو گزشتہ اگست میں بدعنوانی کے الزام میں تین برس کے لیے جیل بھیجا گیا تھا، تاہم بعد میں جب عدالت نے ان کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا، تو انہیں ریاستی دستاویزات لیک کرنے جیسے سنگین الزام کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا اور تب سے وہ جیل میں قید ہیں۔

سائفر کیس کا تعلق اس دستاویز سے ہے، جسے عمران خان نے مبینہ طور پر گزشتہ سال مارچ میں ایک عوامی ریلی کے دوران ہوا میں لہراتے ہوئے اچھال کر کہا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے در اصل غیر ملکی سازش کا ہاتھ ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے۔

تاہم چند ہفتوں بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس مقدمے کا تعلق سائفر دستاویزات کی گمشدگی سے ہے۔

فرد جرم کی نقل کے مطابق گزشتہ ہفتے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں 28 گواہوں کی فہرست جمع کرائی تھی۔

پاکستان: سائفر کیس میں عمران اور محمود قریشی پر فرد جرم عائد

خصوصی عدالت نے دونوں رہنماؤں پر فرد جرم 23 اکتوبر تک ملتوی کر دی تھی۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم کے کاغذات یا چالان کی کاپیاں ملزمان کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

اس سے قبل اکتوبر کے اوائل میں عمران خان نے اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں کیس کو خارج کرنے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے ذریعے مقدمہ نہ چلانے کی درخواست کی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دفعہ 248 کے تحت استثنیٰ کے لیے بھی ایک اور درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ کی دفعہ پانچ سائفر کیس پر لاگو نہیں ہوتی۔

 خیال رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ برطانوی نوآبادیاتی دور کے سن 1923 کا  100 سال پرانا قانون ہے، جس میں 14 سال قید یا موت کی سزا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال قید اور سزائے موت ہے۔

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

ج ا/ ص ز(نیوز ایجنسیاں)