1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زخمی نو زائیدہ بچی کا نام نہاد ’مہذب دنیا‘ سے مکالمہ

9 فروری 2023

ترکی اور اس کے ہمسائے ملک شام میں آنے والا زلزلہ، جہاں ہزاروں انسانوں کو نگل چکا ہے، وہاں یہ ’عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے‘ کے لیے ان گنت انسانوں کی زندگیوں میں اُمید کی آخری کرن بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4NIFX
Kishwar Mustafa
تصویر: Privat

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بدھ کے روز ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں دنیا کے سب سے مہلک ترین زلزلے کے ردعمل میں حکومتی ''کوتاہیوں‘‘ کا اعتراف کیا کیونکہ یہ امید ختم ہو گئی ہے کہ منہدم ہونے والی ہزاروں عمارتوں کے ملبے سے مزید بچ جانے والے افراد کو نکالا جا سکے گا۔

صدر ایردوآن کو اس وقت کڑے امتحان کا سامنا ہے کیونکہ ایک طرف ترکی کے مجوزہ انتخابات ہیں تو دوسری جانب  7.8 شدت کے زلزلے کے ہنگامی ردعمل سے متعلق مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی مایوسی جبکہ سردیوں کا موسم ایک اضافی عنصر ہے پریشانیوں کو بڑھانے کا۔ زلزلے نے صوبہ حطائے کے ہوائی اڈے کا رن وے بھی تباہ کر دیا ہے، جس سے امدادی کارروائیوں اور ریسکیو سرگرمیوں میں مزید خلل پڑا ہے۔

ایردوان کہتے ہیں کہ اسی قسم کی ناگہانی آفات اور تباہی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایردوآن کے مخالفین کو ایک موقع مل گیا ہے موجودہ حکومت کو 'بدنام‘ کرنے کا اور زلزلے کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر آنے والی تباہیوں سے نمٹنے اور بچ جانے والوں کو بنیادی امداد فراہم کرنے میں حکومتی ناکامی کو سیاسی ہتھکنڈا بنانے کا۔

عالمی برادری کی طرف سے ترکی اور شام کو امداد فراہم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے گئے ہیں اور طاقتور حلقوں نے تباہی کے شکار ان دونوں ممالک کی مدد کے' عزم کا اظہار‘ بھی کیا ہے۔

اس سے قطع نظر کے کن ممالک کی طرف سے کس نوعیت کی امداد فراہم کی جائے گی اور ان امدادی کاموں کے پیچھے کون سے سیاسی اور اسٹریٹیجک مفادات کار فرما ہوں گے، اس وقت تمام تر اقدامات کا مرکزی مقصد شام اور ترکی کے زلزلے میں بچ جانے والوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی بنیادی طبی اور دیگر ضروریات کا بندوبست کرنا ہونا چاہیے۔

شامی زلزلہ متاثرین: سیاست پہلے، امداد بعد میں؟

یورپی طاقتیں پہلے ہی سے روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں۔ اب ان کا ایک اور امتحان شروع ہو گیا ہے۔

  یوکرین کے لیے اسلحے کی فراہمی کے وعدے پورے کریں یا زلزلے کے ہزاروں متاثرین کی امداد پر توجہ مرکوز کریں۔ معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ہو گیا ہے کہ ترکی اور شام دونوں ہی ایسے ممالک ہیں، جن کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں کے سیاسی اور سفارتی تعلقات کا دار و مدار 'انسانیت دوست سیاست‘ پر نہیں بلکہ ایک مخصوص خطے میں ان کے اپنے سیاسی مفادات پر ہے۔

اس تمام صورتحال میں، جو کسمپرسی اور بے بسی کی پکار ہے، وہ شام اور ترکی میں زلزلے کے نتیجے میں منہدم عمارتوں، زمین بوس گھروں اور تباہ ہونے والے پورے پورے محلوں کے ملبوں کے نیچے سے آ رہی ہے۔ ان میں سے بہت سی آوازیں ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ بند ہوتی جا رہی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان آوازوں میں اکثر شیر خوار، نومولود بچوں کیساتھ ساتھ کم سن بچوں کی آوازیں بھی شامل ہیں، جن کے جسم کنکریٹ کی دیواروں کے ٹکڑوں اور ریت کے نیچے دبے ہیں، ان کی سانسیں چل رہی ہیں، جو کسی بھی لمحے رُکنے کو ہیں۔

گزشتہ اتوار کو ترکیاور شام میں آنے والے زلزلے کے بعد کے مناظر کی، جس قدر دلخراش تصاویر اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں، اُن کو دیکھ کر خاموش بیٹھ جانا کسی زندہ انسان کا عمل نہیں ہو سکتا۔ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچنا کہ ان ہزاروں متاثرین میں اگر ہم بھی شامل ہوتے تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا؟ یہ خیال ہر انسان، جس کا ضمیر زندہ ہے اور جو حساس ہے، کے ذہن میں آنا فطری بات ہے۔

کیا ان ہزاروں متاثرین، جن میں چھوٹے چھوٹے بچے، مرد و زن، نوجوان اور سن رسیدہ ہر طرح کے انسان شامل ہیں، ان کا کوئی اتنا بڑا قصور تھا، جس کی انہیں سزا ملی ہے؟  حالیہ تباہ کن زلزلے کی ہر ایک جھلک ایک قیامت کا سماں پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ابھی چند لمحوں پہلے واٹس ایپ پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو نے میرے ذہن پر اتنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، جو الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ اس ویڈیو میں ملبے کے نیچے ایک زندہ بچی، جس کا چہرہ خون آلود ہے، جو بمشکل پانچ یا جھ برس کی ہوگی، اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے چھوٹے بھائی کے سر کو چھپانے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی۔ اُس کا اور اس کے بھائی کا جسم ملبے میں دبا ہوا ہے اور ان دونوں کو امدادی کارکُن باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کے چند لمحوں بعد ہی اُس رپورٹ پر نظر پڑی، جس میں یک نو زائیدہ بچی، زخموں سے رنگین جسم کیساتھ ایک ہسپتال کے انکیوبیٹر میں پڑی ہے۔ اسے شام میں ایک عمارت کے ملبے سے نکالا جا سکا۔ اس معجزاتی زندگی کے دنیا میں آنے کا سبب بننے والی ماں اور اس بچی کی ناف اُس وقت تک جُڑی ہوئی تھی، جب تک امدادی کارکنوں نے اس کی رونے کی آواز پر اسے ملبے سے نکالا اور اس کی ناف کاٹ کر فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کر دیا۔ ماں ملبے کے نیچے دم توڑ گئی اور المیہ یہ کہ اس بچی کے ماں باپ اور بھائی بہنوں سمیت تمام خاندان زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہو چکا ہے۔

ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی بنیادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ تاہم اس کے تمام اعضاء ٹھیک کام کر رہے ہیں لیکن جسم کافی زخمی ہے۔ یہ یتیم بچی اگر بچ گئی تو بڑے ہو کر یہ تمام دنیا کے انسانوں سے ایک بات کرے گی جس پر غور کیا جائے تو دنیا کے تمام ادیان کے ماننے والوں کو شاید ایک سبق مل سکے۔

جنرل دوورنیکوف: 'شام کا قصاب‘ اب یوکرین میں روسی فوجی کمانڈر

 اس مکالمے کا تعلق انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ادب و فلسفے کی دنیا کے ایک بہت مشہور نام ماکسم گورکی کی ایک تصنیف سے ہے۔ اس معروف روسی مصنف کے شاہکار ناول 'ماں‘ کے نام سے شائع ہونے والی یہ تصنیف عالمی ادب میں ایک اونچا مقام رکھتی ہے۔ اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے، جسے میں اس دور کے تمام انسانوں، چاہے ان کا مذہب و عقیدہ کچھ بھی ہو، کے لیے ایک بہت بڑا سبق سمجھتی ہوں۔

''جب پاول ولاسوف کی ماں نے اُس سے اور اُس کے دوستوں سے پوچھا، میں نے سنا ہے تم خُدا کو نہیں مانتے؟ تو پاول ولاسوف نے جواب دیا،'' ماں ہم اُس خدا کی بات نہیں کر رہے جو تیرے دل میں ہے، جو رحیم و کریم ہے، شفیق ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ ہم تو اُس خدا کی بات کر رہے ہیں، جو پادریوں نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے، جو ہر وقت ڈنڈے سے بندوں کو ہانکتا ہے اور ہر وقت انہیں سزا دیتا ہے۔‘‘

ولاسوف نے مزید کہا،'' ماں جب ہم اپنا خدا ان پادریوں کے قبضے سے چھڑا لیں گے، پھر اُس کو اپنے دل میں بسائیں گے، تب اُس کی حمد گائیں گے۔‘‘

ماکسم گورکی کی کتاب ' ماں ‘ سے لیا گیا یہ اقتباس شاید کل کو شام میں زلزلے میں ایک خاندان کی بچ جانے والی واحد بچی بھی پڑھے۔ اُس کے پاس تاہم اُس کی ماں نہیں ہو گی، جس سے وہ یہ مکالمہ کرے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ یہ بات آج کی دنیا کے تمام انسانوں سے کرے گی، چاہے ان کے روحانی پیشوا پادری ہوں، راہب ہوں یا مولوی۔