1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زحل کے چاند میماس پر برفیلی تہہ کے نیچے سمندر کی دریافت

25 فروری 2024

کوئن میری کالج لندن کے سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ زحل کے چاند میماس پر برفیلی تہہ کے نیچے ایک سمندر موجود ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ سمندر 2 سے 25 ملین سال پہلے وجود میں آیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4coZc
3D-Illustration Planet Mars isoliert am schwarzen Nachthimmel
تصویر: Evgeniy Alyoshin/PantherMedia/IMAGO

کوئن میری کالج لندن کے ماہرین ِ فلکیات پر مشتمل ایک ٹیم کی نئی تحقیق کے مطابق زحل کے چاند  میماس پر برفیلی تہہ کے نیچے ایک سمندر چھپا ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں زندگی کی نشونما ممکن ہے۔ دنیا بھر سے ماہرین فلکیات کے لیے یہ ایک چونکا دینے والی دریافت ہے، جس سے سائنسدانوں کی ''اوشین مون‘‘ یا چاند کے سمندر کی پرانی تعریف تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی سیارے کے چاند پر زندگی کی نشونما کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

 نئی تحقیق کیا ہے؟

رواں ماہ نیچر سائنس جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنف ولیری لینی آبزرویٹوائر ڈی پیرس سے باحیثیت ماہر فلکیات وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''یہ نئی تحقیق  ہمارے لیے حیران کن ہے کیونکہ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زحل کے چاند میماس پر مائع حالت میں پانی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔‘‘

 ولیری لینی کے مطابق میماس پر برفیلی تہہ اتنی موٹی ہے کہ اس کے نیچے یہ سمندر بغیر کسی واضح ایکٹیویٹی کے لاکھوں سال چھپا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ 13برس زحل کے سسٹم  میں گزارنے کے باوجود کیسینی سپیس کرافٹ میماس پر اس سمندر کو دریافت نہیں کر سکا۔

ولیری اور کوئن میری کالج کے سائنسدانوں کی ٹیم نے اس تحقیق کے لیے ڈیٹا کیسینی سپیس کرافٹ سے حاصل ہونے والے مواد سے لیا تھا۔ اس خلائی گاڑی کو 2017ء میں مشن مکمل ہو جانے کے بعد زحل کی سطح سے ٹکرا کر تباہ کر دیا تھا۔ ولیری بتاتے ہیں کہ 2010ء میں ان کی ٹیم زحل کے رنگز میں بریک یا فاصلے پر تحقیق کر رہی تھی، جسے سائنسی اصطلاح میں''کیسینی ڈویژن‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا ان رنگز میں بریک میماس کے مدار میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پاکستانی سائنسدان کی جرمنی میں حیرت انگیز دریافت

ولیری کے مطابق زحل کے رنگز اربوں پارٹیکلز پر مشتمل ہیں، جن میں بہت سے بریک اور سٹرکچر ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زحل کے چاندوں کی حرکت کے باعث رونما ہوئے ہیں۔ سائنسدان اس پر ایک عرصے سے تحقیق میں مصروف ہیں، جس کے لیے کیسینی سے حاصل شدہ ڈیٹا کا از سر نو تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

میماس ووبل کیا ہے؟

ولیری لینی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 2010ء میں ان کی ٹیم نے میماس کے مدار اور گردش میں ایک حیران کن تبدیلی نوٹ کی، ''چار سال کے تجزیے کے بعد 2014ء میں ان کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ زحل کے اس چاند کی اندرونی سطح ٹھوس پتھریلی ہے یا پھر یہاں زیر زمین کوئی سمندر ہے، جس کے باعث اس کا اوپری شیل یا خول اندرونی سطح کے اثر سے آزاد بلا واسطہ حرکت کرتا ہے۔

لینی بتاتے ہیں کہ اس حوالے سے پہلی پیش رفت اس وقت ہوئی، جب ان کی ٹیم نے میماس کی حرکت کا ایک مکمل ماڈل تیار کیا۔ اس ماڈل اور مزید کئی سال کی تحقیق سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ میماس کی پتھریلی سطح والا مفروضہ حقیقیت سے بالکل الٹ معلومات دیتا ہے۔ لہذا غالب امکان ہے کہ میماس پر زیر زمین کہیں کوئی سمندر موجود ہے، جو کسی وجہ سے کیسینی سپیس کرافٹ ڈیٹیکٹ نہیں کر سکا۔

میماس کا سمندر کیسا ہے؟

ولیری لینی کے مطابق میماس کا تقریبا 50 فیصد حصہ اس سمندر سے گھرا ہوا ہے، جو اس چھوٹے سے سیٹیلائٹ کے حساب سے ایک بڑا رقبہ ہے۔ وہ کہتے  ہیں کہ اس نئی تحقیق سے میماس زحل کے دوسرے چاند انسلیدس سے مماثل ثابت ہوا ہے، جہاں زیر زمین سمندر چند سال قبل دریافت کیا جا چکا ہے۔

دیگر خلائی اجسام پر موجود پانی میں زندگی کی تلاش

وہ کہتے ہیں کہ دونوں چاندوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ انسلیدس کے سمندر سے اونچے فوارے اور جھاگ اڑتے ہیں جبکہ میماس کا یہ نوزائیدہ سمندر ابھی برفیلی تہہ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔

میماس سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز کیوں ہے؟

زحل کا چھوٹا سا چاند میماس ایک عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز ہے، جسے ''ڈیتھ سٹار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ چاند دیکھنے میں ''سٹار وارز‘‘ سیریز میں دکھائے جانے والے ڈیتھ سٹار کی طرح خوفناک لگتا ہے۔ سٹار وارز سیریز میں ایک خلائی ہتھیار کو ڈیتھ سٹار کا نام دیا گیا تھا، جو سیاروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا  تھا۔ ماہرین کے مطابق میماس پر پہلی نظر پڑتے ہی ڈیتھ سٹار کا خیال آتا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

لینی کہتے ہیں کہ یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ بظاہر  ڈیتھ سٹار نظر آنے والے آبجیکٹ کو آباد کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں زندگی کے لیے لازمی اجزاء  میں سے چند موجود ہیں۔ ان کے مطابق دریافت کا یہ سفر ابھی رکا نہیں ہے، ''ہمارے نظام شمسی اور اس سے باہر کتنے ہی ایسے اجسام ابھی دریافت کے منتظر ہیں۔‘‘