1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ کے بعد اسقاط حمل کی کوشش: جنین، پاکستانی بچی دونوں ہلاک

28 مئی 2023

پاکستانی شہر پشاور کے ایک ہسپتال میں ایک ایسی تیرہ سالہ لڑکی کی موت واقع ہو گئی، جو ریپ کے بعد پانچ ماہ سے حاملہ تھی۔ غیر قانونی اسقاط حمل کی کئی کوششوں کے سبب پہلے اس کا جنین اور پھر وہ خود بھی موت کے منہ میں چلی گئی۔

https://p.dw.com/p/4Rv9J
Lady reading Hospital Peshawar
تصویر: Faridullah Khan/DW

اس المناک واقعے میں تیرہ سالہ بچی کاملہ (نام بدل دیا گیا) اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کے خلاف جرم در جرم زیادتیوں کے ارتکاب کا سلسلہ اس وقت منظر عام پر آنا شروع ہوا، جب اسی ہفتے بدھ چوبیس مئی کے روز کاملہ کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا۔

کاملہ کا غیر قانونی اور انتہائی غیر محفوظ طریقوں سے حمل ضائع کرنے کی کئی کوششیں کی گئی تھیں اور اسے اس کی بہت تشویش ناک حالت کے باعث فوری طور پر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کاملہ نے پانچ ماہ کے جنین کو مردہ حالت میں جنم دیا اور اس کے بعد خود بھی زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکی۔

کاملہ کی والدہ کی غلط بیانی

اس لڑکی کے ہسپتال لائے جانے کے بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع کی تو ابتدائی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ کاملہ کے اہل خانہ نے ہسپتال میں اس کا نام اور پتہ بھی غلط لکھوایا تھا۔ کاملہ کے خاندان کا تعلق پشاور کے نواحی علاقے پھندو سے ہے۔ ہسپتال میں ہی کاملہ کی والدہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ تو جانتی بھی نہیں تھیں کہ کاملہ حمل سے تھی۔

اور کیا چاہیے ریپ کرنے والوں کو؟

پولیس سپرنٹنڈنٹ محمد عمر نے اس کیس کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کاملہ کی والدہ کی طرف سے غلط معلومات دیے جانے اور سارے ہی معاملے کے بہت مشکوک ہونے کے باعث جب مقامی طور پر تفتیش کی گئی تو کاملہ کی درست شناخت اور پھندو میں رہائشی پتہ دونوں کا تعین ہو گیا۔

 KP police
کاملہ کی والدہ کی ہسپتال میں غلط بیانی کے بعد پولیس کو اس خاندان کی اصل شناخت اور رہائشی علاقے کا پتہ چلانے میں دیر نہ لگیتصویر: KPPolice

اس لڑکی کا والد مقامی فروٹ منڈی کا ایک مزدور ہے، جس کے مطابق اسے کوئی علم ہی نہیں تھا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی، وہ حاملہ تھی یا پھر یہ کہ اس کے بیوی نے اپنی بیٹی کا اسقاط حمل کروانے کی کوششیں کی تھیں۔ کاملہ کے والد نے پولیس کو بتایا، ''مجھے صرف یہ کہا جاتا تھا کہ کاملہ کے پیٹ میں بہت درد رہتا تھا اور میری بیوی اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی۔‘‘

کاملہ کا ریپ کس نے کیا؟

پولیس کی طرف سے اس مقدمے میں ایف آئی آر درج کیے جانے کے فوری بعد جو تفتیش کی گئی ہے، اس کے نتائج کے مطابق کاملہ کے خاندان کا ماضی قریب میں ایک پڑوسی کے جھگڑا ہوا تھا۔ پھر چند روز قبل یہی پڑوسی اور اس کے اہل خانہ اپنے گھر کو تالا لگا کر کہیں چلے گئے تھے۔ پولیس کو یکدم کہیں چلے جانے والے اس خاندان پر شبہ ہوا، تو علاقے کے مکینوں کی مدد سے اس کا بھی پتہ چلا لیا گیا۔

جنسی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنا کیوں ضروری ہے؟

پولیس سپرنٹنڈنٹ محمد عمر کے مطابق اس خاندان کے ایک 25 سالہ نوجوان علیم (نام بدل دیا گیا) سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے اعتراف کر لیا کہ کہ اس نے کاملہ کے ساتھ چار پانچ بار جنسی زیادتی کی تھی۔ اس کے بعد ملزم علیم کو باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اس کے ڈی این اے کے نمونے لے کر اس لیے ماہرین کو بھجوا دیے گئے کہ ان کا کاملہ کے جنین کے ڈی این اے کے ساتھ موازنہ کیا جا سکے۔

کاملہ اور اس کے بچے کی موت میں مجرمانہ معاونت

کاملہ اور اس کے بچے کی رحم مادر میں موت کے سلسلے میں اب تک اس لڑکی کا ریپ کرنے والا مبینہ ملزم ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق تفتیش ابھی جاری ہے۔ تاہم اب تک ان افراد میں سے، جن میں کاملہ کی والدہ اور غیر معیاری اور غیر قانونی اسقاط حمل کی کوششیں کرنے والے بھی شامل ہیں، کوئی بھی گرفتار نہیں کیا گیا حالانکہ کاملہ اور اس کے بچے کی موت ایسے ہی افراد کی بار بار کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہوئی۔

 KP police
زیر حراست ملزم اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے کاملہ سے چار پانچ مرتبہ جنسی زیادتی کی تھی، ایس پی محمد عمرتصویر: KPPolice

تیرہ سالہ کاملہ پھندو کے سرکاری اسکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی اور اسے اسقاط حمل کی غیر قانونی کوششوں کے دوران ضرورت سے بہت زیادہ ادویات دی گئی تھیں اور ٹیکے بھی لگائے جاتے رہے تھے۔

پاکستان میں میریٹل ریپ پر بات کرنا مشکل کیوں ہے؟

پشاور میں اس واقعے سے باخبر طبی ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ غالب امکان یہ بھی ہے کہ کاملہ کو ایک وقت پر زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ اسی لیے اسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں تقریباﹰ نیم مردہ حالت میں لایا گیا تھا جب کہ اس کے پیٹ میں پانچ ماہ کا جنین مر چکا تھا۔

مجرم اکثر کون ہوتے ہیں؟

صوبے خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد علی باباخیل کے مطابق خواتین اور لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کے مرتکب اکثر ان کے اپنے رشتے دار، محلے دار یا قریبی شناسا افراد ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2019ء سے 2021ء تک صوبے میں ریپ کے جو 119 واقعات رجسٹر کیے گئے تھے، ان میں سے صرف 11میں ملوث مجرموں کو ہی سزائیں سنائی جا سکی تھیں۔ ایسے مقدمات کی کامیاب عدالتی تکمیل کا گزشتہ برس یا رواں سال کا ڈیٹا ابھی دستیاب نہیں۔

پاکستان: امریکی خاتون کا گینگ ریپ، دو افراد گرفتار

دوسری طرف یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ اے آئی جی باباخیل کے مطابق 2022ء میں پورے صوبے خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں کے ریپ کے 365 واقعات رجسٹر کیے گئے اور متاثرہ بچوں اور بچیوں میں سے چار کو تو ریپ کے بعد قتل بھی کر دیا گیا تھا۔ ان جرائم کے سلسلے میں پولیس نے 329 مبینہ ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔

Lady reading Hospital Peshawar
تیرہ سالہ کاملہ کو نیم مردہ حالت میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا تھاتصویر: Faridullah Khan/DW

بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں ایک تہائی کا اضافہ

خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن عمران ٹکر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں صرف ایک سال کے دوران 32 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ عمران ٹکر کے مطابق خیبر پختونخوا میں اوسطاﹰ ہر روز 10 سے لے کر  12 تک بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان: زکریا ایکسپریس میں خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی

عمران ٹکر کے مطابق بچوں کا ریپ، ان کا جنسی استحصال اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا دنیا کے تقریباﹰ سبھی معاشروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ تاہم پاکستان میں اس حوالے سے مروجہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے والا نظام بہت کزور ہے۔ ان کے مطابق، ''متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین اکثر سماجی بدنامی کے خوف سے پولیس کو اطلاع نہیں دیتے۔ کیس رجسٹر کروایا بھی جائے تو ملزمان زیادہ تر پکڑ میں ہی نہیں آتے، قانون کی گرفت میں آ بھی جائیں تو عدالتوں میں سزاؤں سے اکثر بچ جاتے ہیں۔‘‘

عمران ٹکر نے مزید کہا، ''ریپ، جنسی زیادتی اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی حقیقی تعداد ان واقعات کی تعداد سے دوگنا تک ہو سکتی ہے، جں میں پولیس کو باقاعدہ اطلاع دے کر مقدمہ درج کرایا جاتا ہے۔‘‘

'پاکستانی معاشرہ تیار ہے ڈھکے چھپے موضوعات پر گفتگو کرنے کو'