1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رمضان لاک ڈاؤن، باقی دنیا کیسے نمٹ رہی ہے؟

شمشیر حیدر
25 اپریل 2020

پاکستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باوجود مذہبی حلقے باجماعت عبادات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن باقی دنیا میں کیا صورت حال ہے؟

https://p.dw.com/p/3bOZ6
Palästina Gaza Stadt Ramadan Beginn 2020
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hassona

پاکستان کی وفاقی حکومت لاک ڈاؤن نرم کرنے کی حامی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع کر کے پہلے سے زبوں حال معیشت کو بحال کرنا اور ملک کے کمزور ترین طبقے کو بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچانا ہے۔ 
دوسری جانب ملک کا مذہبی طبقہ بھی مساجد میں باجماعت نماز اور تراویح جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس اصرار کے پیچھے علما کی اپنی معاشی ضروریات بھی کارفرما ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی مسجدوں میں ہی عبادت کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
تاہم کورونا وائرس کی وبا کے دوران مذہبی افراد کے لیے اس مرض سے نمٹنے کے لیے عبادت کرنا بھی اہم ہے۔ ماہ رمضان کے دوران اس رجحان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
علما، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف موقف کے باوجود پاکستان میں رمضان کے مہینے کے دوران افطار سمیت دیگر روایتی سرگرمیاں گزشتہ برسوں جیسی نہیں ہیں۔ 
دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے بھی اس مرتبہ کا رمضان غیرروایتی ثابت ہو رہا ہے۔

BG Coronavirus Saudi Arabien Pilger
تصویر: Reuters


کعبہ بند، مشرق وسطیٰ کی صورت حال 
عام طور پر رمضان کے مہینے میں دنیا بھر سے مسلمانوں کی بڑی تعداد خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کا رخ کرتی تھی۔ اس مرتبہ یہ دونوں مقامات خالی ہیں۔ سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے ہی اعلان کیا تھا کہ مکہ اور مدینہ کے یہ مقدس مقامات رمضان کے پورے مہینے میں بند رہیں گے۔ سعودی عرب میں مجموعی طور پر بھی مساجد میں باجماعت نماز اور اجتماعی افطار پر پابندی عائد ہے۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ مصر میں بھی رمضان سے متعلقہ سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ 

متحدہ عرب امارات، عراق، لیبیا، تیونس اور الجزائر میں لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کی گئی ہے لیکن مراکش میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے رات کے وقت میں بھی کرفیو نافذ ہے۔

Coronavirus - Ramadan
تصویر: AFP/R. Tabassum

شمالی افریقی ممالک کی علما کونسل نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ رمضان کے دوران پابندیوں پر عمل درآمد کریں۔ کونسل کے مطابق شرعی قوانین کے مطابق انسانی زندگیاں بچانا باجماعت عبادات سے زیادہ ضروری ہے۔ 

یہ بھی پڑھیے: ’عقيدت مند وبا کے دوران بھی روزہ ضرور رکھيں‘
ایران مشرق وسطیٰ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامہ ای نے بھی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ باجماعت نماز اور دیگر اجتماعات سے گریز کریں۔


ایشیائی ممالک کی صورت حال 
دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان ایشیا میں بستے ہیں۔ ملائیشیا میں کورونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے لاک ڈاؤن میں دو ہفتوں کے لیے توسیع کر دی ہے۔ 
ملائیشیا کے وزیر اعظم محی الدین یاسین نے عوام سے کہا ہے کہ وہ رمضان کے دوران کورونا وائرس کے خلاف ’جہاد‘ جاری رکھیں۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سائے تلے ماہ رمضان کا آغاز

انڈونیشیا میں بھی مساجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد ہے۔ بنگلادیش میں مذہبی حلقے کی مخالفت کے باوجود حکومت نے ملک بھر کی تین لاکھ سے زائد مساجد میں اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہیں۔ 
بھارت اور سری لنکا میں بھی مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے پر پابندی عائد ہے۔ 

یورپ کے مسلمان اور رمضان 
ترکی میں بھی رمضان سے قبل ہی نقل و حرکت پر پابندیوں سمیت کئی دیگر اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ انقرہ حکومت نے افطار کے اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 
علاوہ ازیں افطار سے دو گھنٹے پہلے ہی اشیائے خورد و نوش کی دکانیں بند کر دی جاتی ہیں۔ مذہبی مقامات بند ہیں جب کہ قبرستانوں کا رخ کرنے والے افراد سے بھی سماجی فاصلہ یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔

کورونا وائرس کے دوران رمضان


برطانیہ کورونا وائرس سے شدید ترین متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ وہاں بسنے والے مسلمانوں نے بھی رمضان کے دوران باجماعت نماز، تراویح اور دیگر عبادات کے لیے ٹینکالوجی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسجد جانے کے بجائے لوگ لائیو اسٹریم کے ذریعے اجتماعی عبادات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے: ’قرنطینہ اپنی جگہ مگر رمضان کی روح قائم رہے گی‘
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل زیڈ ایم ڈی کے سربراہ ایمن مازیک نے بھی مسلمانوں سے اپنے گھروں میں اہلخانہ کے ساتھ عبادات کرنے کی درخواست کی ہے۔ 
رمضان سے قبل جاری کیے گئے بیان میں مازیک نے کہا، ’’ بطور شہری کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا ہماری ذمہ داری بھی ہے اور مذہبی فریضہ بھی۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا امتحان اور جہاد ہے۔‘‘ 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں