1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رائے قائم کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے

14 دسمبر 2023

ججمنٹل ہونا ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ ہم کچھ بھی سوچے سمجھے بنا کسی کے بارے بھی کوئی بھی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ عموما یہ رائے ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس کے عمومی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4a8rk
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

’ججمنٹل‘ یہ لفظ اکثر کسی خاص رویے، شخص، یا غلطی کی قسم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیا آپ بھی ججمنٹل ہیں؟ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ دن میں کتنی بار لوگوں، حالات یا واقعات کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں؟ یہ ایک عام عادت ہے جس کو ہم جانے ان جانے پریکٹس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم کسی سے ملتے ہیں، تو ہم فوری یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کیسا نظر آتا ہے اور ان کے طرز زندگی کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔

جب ہم سوشل میڈیا پر اسکرول کرتے ہیں، ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کے لباس پسند ہیں یا نہیں، ان کے بالوں کے انداز کو دیکھتے ہیں، ان کی حرکات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے جو چیز ہم نے کسی میں پہلی نظر میں نوٹ کی ہو وہ اس کے بالکل مختلف نکلے۔ اس لیے فورا ہی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ مثال کے طور پر، راہ چلتے ہم نے کسی شخص کو پٹتے دیکھا اور پیٹنے والا شخص ہمیں سخت مزاج لگا تو ہماری ہمدردی فوری طور پر پٹنے والے شخص کے ساتھ ہو جاتی ہے اور بنا تحقیق کیے کہ کس غلطی ہے ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ جسے مارا پیٹا جا رہا ہے وہ مظلوم ہے۔

اس رویہ کو ججمنٹل ہونا کہتے ہیں کہ ہم خود ہی کسی کو جانے پرکھے بنا اچھے یا برے ہونے سرٹیفکیٹ عطا کر دیتے ہیں۔ یہ ایک منفی لفظ ہے، جو کسی ایسے شخص کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اکثر بغیر کسی وجہ کے فیصلے کے لیے جلدی کرتا ہے۔ 

کولمبیا کے ڈاکٹر مارکم کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ حقائق کے بنا منفی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ دنیا کو ذاتی تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمدردی کسی سے نہیں کرتے۔ برتری کا شکار ہوتے ہیں اور ہر دوسرا انسان ان کو حریف نظر آتا ہے اور اکثر نا خوش ہی رہتے ہیں۔

جب ہم کسی سے بھی ملتے ہیں یا دیکھتے ہیں تو ہم اس کے بارے پروجیکشن کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق پروجیکشن ایک عام انسان کا نفسیاتی طور پر دفاعی طریقہ کار ہوتا ہے، جو ہمیں نفسیاتی طور پر تکلیف سے بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انسان ایسا کیوں بن جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم سماجی مخلوق ہیں۔ بچے تمام اچھے اور برے رویوں کو جذب کرتے ہیں اور ان کی نقل کرتے۔ اگر آپ کے بڑے جو آپ کے ساتھ گھر میں ہوتے ہیں ان کا رویہ ججمنٹل ہے تو آپ بھی با آسانی ججمنٹل بن سکتے ہیں۔

احساس کمتری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور سگمنڈ فرائیڈ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق پروجیکشن کے ساتھ احساسات اور عدم تحفظ کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ظاہری چیزوں کی وجہ سےججمنٹل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ احساس کمتری بڑھ کر احساس محرومی میں بدل جاتا ہے اور اس کا شکار شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ سب لوگ جان بوجھ کر اس کو اس کی خوشیوں سے محروم کرتے ہیں۔

وجہ کچھ بھی ہو، چاہے وہ مذہبی پرورش ہو، پسماندہ بچپن ہو، یا محض ایک مختلف مزاج کا معاملہ، لوگ بعض اوقات ایسی چیزوں پر تنقید کرتے ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر قبول نہیں کر سکتے۔

ججمنٹل ہونا زندگی گزانے کے لیے کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کسی کے بارے میں غلط سوچ بسا اوقات بڑے بڑے نقصانات کروا دیتی ہے۔ اس رویہ کو کم یا ختم کیسے کیا جا سکتا ہے آئیے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے سوچنے کے انداز کو بہتر بنائیں۔ منفی سوچوں کو خاتمہ کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی تکلیف جاننا چاہتے ہیں تو خود کو اس صورت حال میں کھڑا کر کے سوچو۔ حقیقت کو قریب تر سے جاننا بھی ججمنٹل سوچ کا خاتمہ کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملیں تاکہ لوگوں کے تجربات کو اور ان کی سوچ کو جان سکیں۔ اس سے پہلی نظر کا تاثر ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔