1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی میں موجود سفارت کاروں کو کشمیر لے جانے کی دعوت

8 جنوری 2020

مودی حکومت نے آئیندہ چند روز میں یورپی اور اسلامی ممالک کے سفارت کاروں کو جموں کشمیر کا دورہ کرانے کی دعوت دی ہے لیکن بعض سفارتکاروں نے اس قسم کے دورے کے افادیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VtQG
Kaschmir Dal-See in Srinagar
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

اطلاعات کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے دلی میں متعدد سفارت کاروں سے رابطہ کیا ہے، جن میں مشرق وسطیٰ اور او آئی سی کے نمائندے شامل ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ یہ دورہ نو جنوری سے شروع ہوسکتا ہے، جس میں سکیورٹی کا انتظام  کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے ہاتھ میں ہوگا۔

بھارت نے اگست کے اوائل میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے ریاست کے تمام بڑے رہنماؤں کو قید کر دیا تھا اور کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس میں سے کچھ پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں تاہم انٹرنیٹ پر ابھی پابندی عائد ہے اور ریاست کے بیشتر بڑے سیاسی رہنما اب بھی نظر بند ہیں۔

خیال ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر پر عالمی تشویش زائل کرنے کے لیے ان اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔

Indien Kaschmir Opferfest
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Anand

حکومت نے ابھی تک ایسے کسی دورے کی تصدیق نہیں کی تاہم بھارتی میڈيا میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس دورے پر کچھ سفارت کاروں کے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

یورپی یونین کے بعض سفارت کاروں نے حکومت سے پوچھا ہے کہ کشمیر کے دورے میں انہیں  آزادنہ لوگوں سے ملنے کی اجازت ہوگي یا نہیں۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس دورے میں سفارت کاروں کو سکیورٹی فورسز اور مقامی افسران زمینی حالات سے آگاہ کریں گے۔

بھارت میں بیشتر دانشور اور سرکردہ شخصیات کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرتے  ہیں۔

دلی میں انسٹیٹوٹ فار کانفلیکیٹ مینیجمنٹ کے ڈائریکٹر اجے ساہنی کہتے ہیں کہ، "سوال یہ ہے کہ سفارت کاروں کو عام لوگوں تک کتنی رسائی کتنی ہوگي تاکہ وہ خود اپنی رائے قائم کر سکیں؟"

Indien Narendra Modi empfängt die Delegation des Europaparlament in Neu Delhi
تصویر: Reuters/India's Press Information Bureau

 انہوں نے مزید کہا کہ، "سفارت کار تو گيلانی اور اپوزیشن رہنماؤں سے بھی ملنا چاہیں گے، تو کیا حکومت ملنے دے گی؟ لوگ بیوقوف نہیں ہیں، وہ خود چیزوں کو دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔"

گزشتہ اکتوبر بھارتی حکومت نے یوروپی یونین کے تقریبا دورجن ارکان پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کروایا تھا۔ اس گروپ میں بیشتر ارکان کا تعلق سخت گیر دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔

انہیں کشمیر سیاحوں کی طرح  لے جایا گيا اور سول سوسائٹی سے ملنے نہیں دیا گيا، جس کے بعد حکومت پر سخت نکتہ چینی ہوئی تھی۔

کئی حلقوں کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے کہ جب ریاست کے کئی بڑے رہنما قید میں ہیں، کشمیری ارکان پارلیمان نظر بند ہیں اور خود کشمیریوں کو  نقل و حرکت کی اجازت نہیں تو باہر کے ارکارن پارلیمان  کے دورہ کشمیر کا کیا مقصد تھا۔

نکتہ چینی اتنی زیادہ ہوئی کہ بعد میں یورپی یونین کو ایک وضاحتی بیان میں کہنا پڑا کہ تمام ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیر کے دورے پر گئے تھے اور وہ کسی ملک کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید