1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں بیاسی کروڑ انسان بھوک اور کم خوراکی کا شکار

12 اکتوبر 2018

بھوک کے تازہ ترین عالمی انڈکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بیاسی کروڑ سے زائد انسان بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں یہ تعداد بین الاقوامی سطح پر مسلح تنازعات اور جنگوں کی وجہ سے اور بڑھی ہے۔

https://p.dw.com/p/36Pik
تصویر: picture-alliance/AA/A. Damashqy

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن میں عالمی سطح پر مجبوراﹰ فاقہ کشی، بھوک کے مسئلے اور کم خوراکی سے متعلق اعداد و شمار پر مشتمل سال رواں کے لیے بھوک کے عالمی انڈکس (WHI) 2018ء کی تفصیلات جمعرات گیارہ اکتوبر کی شام جاری کی گئیں۔ یہ انڈکس بین الاقوامی سطح پر بھوک کے خاتمے کے لیے کوشاں اور جرمنی سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم  ’وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ یا ‘ورلڈ ہنگر ہیلپ‘ کی طرف سے ہر سال جاری کیا جاتا ہے۔

اس انڈکس کے مطابق اس وقت کرہ ارض پر 821 ملین انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے یا تو کوئی خوراک دستیاب نہیں یا پھر وہ تشویش ناک حد تک کم خوراکی کا شکار ہیں۔ ان میں وہ 124 ملین یا قریب ساڑھے بارہ کروڑ انسان بھی شامل ہیں، جن کا بھوک کا مسئلہ انتہائی شدید ہو کر فاقہ کشی بن چکا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق 2000ء سے لے کر آج تک گزشتہ 18 برسوں میں بھوک کے خاتمے کی عالمی کوششوں میں جتنی بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے، اسے ان جنگوں اور مسلح تنازعات سے شدید خطرات لاحق ہیں، جو بڑی تعداد میں مختلف خطوں میں پائے جاتے ہیں اور جن میں سے بہت سے برس ہا برس سے حل نہیں ہو سکے۔ اس انڈکس کے مطابق اس وقت دنیا کا بھوک اور کم خوراکی سے سب سے زیادہ متاثرہ خطہ براعظم افریقہ کا زیریں صحارا کا علاقہ ہے۔

Symbolbild Hungernot Afrika
تصویر: picture-alliance/dpa

اس صورت حال کو جرمن وزیر ترقیات گیرڈ میولر نے ایک پریشان کن پیش رفت قرار دیا ہے کہ عالمی سطح پر کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا میں بھوک کے مسئلے کا سامنا کرنے والے انسانوں کی تعداد گزشتہ تین برسوں سے دوبارہ بڑھ رہی ہے۔

گیرڈ میولر نے کہا ہے، ’’کرہ ارض اس بات کی اہلیت رکھتا ہے اور اتنے وسیع وسائل بھی دستیاب ہیں کہ دنیا کے تمام انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا مل سکے۔‘‘ چانسلر میرکل کی کابینہ کے اس رکن نے کہا کہ آج دنیا میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ ’بھوک سے پاک دنیا‘ کی منزل حاصل کی جا سکے لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ بار بار اور جگہ جگہ پیدا ہونے والے پرتشدد اور ہلاکت خیز مسلح تنازعات بھوک کے خلاف کوششوں کے ثمرات ضائع کر دیتے ہیں۔

WHI 2018 کے مطابق اس وقت دنیا میں پندرہ کروڑ سے زائد (151 ملین) بچے بھی ایسے ہیں، جن کی معمول کی جسمانی نشو و نما بھوک یا کم خوراکی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔

ان میں سے پانچ کروڑ بچوں کو تو فاقہ کشی کی حد تک بھوک کا سامنا ہے۔

یہ عالمی انڈکس دنیا کے 191 ممالک کی صورت حال اور وہاں بھوک کے مسئلے کی شدت کو سامنا رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بھوک اور فاقہ کشی کی صورت حال کے اسباب میں صرف جنگیں، مسلح تنازعات اور شدید نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیاں ہی شامل نہیں بلکہ اس عمل میں مہاجرت، ترک وطن اور زندہ رہنے کے لیے نقل مکانی بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

اس انڈکس کے مطابق اس وقت دنیا کے مختلف بحران زدہ خطوں میں یا ان خطوں سے تعلق رکھنے والے 68 ملین (پونے سات کروڑ سے زائد) انسان اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں سے رخصت ہو کر داخلی یا بین الاقوامی مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ دینے پر مجبور انسانوں کی یہ اتنی بڑی تعداد ہے، جتنی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے، ای پی ڈی