1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں موسم اور انتخابی جوش وخروش ’ٹھنڈ‘ کا شکار

16 جنوری 2024

صوبے میں امن و امان کی صورتحال، موسمی شدت اور سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی پر پابندیوں نے انتخابی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے پرامن ماحول مہیا کرے۔

https://p.dw.com/p/4bJKk
Pakistan’s general elections
تصویر: DW

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت مختلف اضلاع میں تاحال انتخابی سرگرمیوں کی رونقوں کی بجائے خوف کی فضا دکھائی دے رہی ہے۔ صوبے میں اکثر سیاسی جماعتوں نے امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

 ان جماعتوں میں جمیعت علماء اسلام (ف) سر فہرست ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان متعدد بار اپنے بیانات میں کھل کر سکیورٹی کے بارے میں تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ کے پی اور بلوچستان میں ان کی جماعت کے لیے انتخابی مہم چلانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

 خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل مولانا کے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کی گاڑی کے قریب فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا تھا تاہم وہ اس وقت اپنی گاڑی میں موجود نہ تھے۔ اسی طرح  ضلع باجوڑ میں جے یو آئی کے امیدوار قاری خیرالرحمان کی گاڑی کے قریب بارودی مواد سے دھماکہ  کیا گیا، جس میں وہ محفوظ رہے۔

 

 امن و امان ایک اہم مسئلہ

خیبرپختونخوا کے گورنر غلام علی نے  حال ہی میں پشاور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں انتخابی ماحول نظر نہیں آرہا۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ''امن وامان ایک اہم مسئلہ ہے الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ  انتخابات کے لیے پرامن ماحول مہیا کرے۔‘‘

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک  رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی شرح سال 2022کے مقابلے میں56فیصد زیادہ رہی۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صوبے میں دہشت گردی کے 91 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 209افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر حملوں کا نشانہ سکیورٹی اہلکار اور پولیس بنی۔

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟

 سخت سرد موسم

خیبر پختونخوا کے بالائی اور بعض میدانی علاقے بھی ان دنوں شدید سردی اور دھند کی لپیٹ میں ہیں اور اس وجہ سے یہاں روایتی انتخابی گہماگہمی بھی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اس حوالے سے کے پی کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اورتجزیہ کار طارق وحید نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "الیکشن میں کچھ ہی وقت بچا ہے لیکن اس مرتبہ وہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں، جو دوہزار تیرہ یا اٹھارہ کے انتخابات میں تھیں۔ بڑے جلسے جلوس تو ایک طرف گلی محلوں کی سطح پر ہونے والی کارنر میٹنگز بھی کم ہی دیکھنے میں آرہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’’عوامی سطح پر اس انتخابی سرد مہری کے کئی محرکات بتائے جا رہے ہیں، جن میں امن و امان کی صورتحال، پی ٹی آئی پر پابندیاں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور نئے چہروں کا بطور امیدوار نظر نہ آنا شامل ہے۔‘‘

تحریک انصاف پر پابندیاں

پاکستان میں الیکشن 2024ء  ایسے وقت میں ہونے جارہے ہیں جب ملک کی ایک مقبول جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان مختلف مقدمات میں جیل میں ہیں اور ان کے ساتھیوں کو بھی قانونی کاروائیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان اور ان کی جماعت کے بعض دیگر رہنماؤں کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیا جانا ان کے حامی ووٹروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

پاکستان تحریک انصاف سن 2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی کُل ننانوے نشستوں میں سے65 پر کامیاب ہوئی تھی جبکہ سن 2013 میں پی ٹی آئی نے 38 نشستیں حاصل کی تھیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق گذشتہ ایک دہائی سے خیبر پختونخوا میں مقبول اس جماعت کے خلاف لگائی گئی پابندیاں بھی ووٹنگ کے ٹرن آؤٹ پر یقینا اثر انداز ہوں گی۔

 

مہنگائی کی بلند شرح اور عوامی ناراضگی

 

پاکستان میں گذشتہ برس مہنگائی کی شرح 40فیصد سے تجاوز کر گئی جو پچھلے کچھ سالوں کی بلند ترین شرح رہی ،سیاسی وابستگیاں یا کسی خاص جماعت کی حمایت نہ کرنے والا ووٹر مہنگائی کے پیش نظر حکومتی اقدامات سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتا اور انتخابی عمل کو صرف ایک سیاسی سرگرمی سے تعبیر کرتا ہے ۔

ڈی ڈبلیو اردو نے اس تمام صورتحال پر عوامی رائے جاننے کی کوشش کی۔ کے پی کی صوبائی اسمبلی کے پشاور میں حلقہ پی کے 78کی عرفانہ اشفاق2022ء ایک مقامی مسجد میں دھماکے ہونے والے دھماکے میں اپنے بیٹے سمیت خاندان کے پانچ افراد کو کھو چکی ہیں، ان کا کہنا ہے، ''امن و امان کی فضا کا سازگار ہونا انتہائی ضروری ہے خاص طور پر ایسے حالات میں جب آپ کے ملک میں الیکشن کی طرح کی کوئی بڑی ایکٹیوٹی ہورہی ہو۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ ہماری آنکھیں پھر سے وہ مناظر دیکھیں جن سے ہم گزرچکے ہیں ،ہم ایک ہی بات بار بار سن رہے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی کے خدشات موجود ہیں تو پھر میں خود یا اپنے گھر والوں کو توالیکشن کے روز باہر نہیں بھیج سکتی۔‘‘

 

روی کمار پشاور کی ہندو کمیونٹی کے رہنما ہیں وہ کہتے ہیں، ''میں ووٹ کاسٹ کروں گا کیونکہ شفاف انتخابات جمہوریت کا حسن ہیں لیکن اس بارجو کچھ ملک کی ایک مقبول نمائندہ جماعت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ کسی طور قابل قبول نہیں ہے،سیاسی پارٹیوں امیدواروں کواور ووٹرز کوسازگار انتخابی ماحول کی فراہمی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔‘‘

 

خالدہ نیاز کا تعلق ضلع نوشہرہ کے انتخابی حلقے این اے 34 سے ہے ان کا کہنا ہے، ''اس بار توووٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ،آپکونئی جماعتوں میں پرانے چہرے ہی دکھائی دیں گے اوپر سے سکیورٹی کے حالات "آزمائے ہوئے کو آزمانے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالیں؟‘‘

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان

 

پشاور میں مقیم فرزانہ علی اپنے صحافتی کیرئیر کا پانچواں جنرل الیکشن کور کرنے جارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ماضی میں خیبر پختونخوا کواب سے کئی زیادہ دہشت گردی کا سامنا رہا لیکن اس بار چند اور چیزوں نے بھی انتخابی عمل کو متاثر کیا ہے، جیسے کہ  ایک طرف عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر پابندی لگا کر الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں تو دوسری جانب خوف کی فضا بنائی جارہی ہے۔‘‘

تاہم خیبر پختونخوا سے مختلف جماعتوں کے امیدواروں، جن میں ن لیگ کے اختیار ولی، عوامی نیشنل پارٹی کی ثمر ہارون بلور اور پی ٹی آئی کے شوکت یوسفزئی شامل ہیں، کا اس حوالے سے ایک ہی موقف ہے کہ پر امن اور ہر لحاظ سے سازگار الیکشن منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی اولین زمہ داری ہے اور یہ کہ پولیٹیکل پارٹیز اور ان کے ورکرز کا کام ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو گھر سے نکالنے کے لئے آمادہ کرے۔

ان امیدواروں کو یقین ہے کہ اس بار ووٹر گھروں سے ضرور نکلیں گےکیونکہ ان کے پاس  اپنی سیاسی رائے کے اظہار کے لئے ایک ہی محفوظ راستہ بچا ہے اور وہ ہے "ووٹ کا استعمال "