1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان: لڑکیوں کا اسکول دھماکے سے اڑا دیا گیا

17 مئی 2024

پولیس کے مطابق مشتبہ عسکریت پسندوں نے پاکستانی طالبان کے سابق گڑھ جنوبی وزیرستان میں واقع لڑکیوں کے ایک اسکول پر بم حملہ کرتے ہوئے اس کا ڈھانچا تباہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fyC5
پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیے
پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیےتصویر: DW/A. Sattar

پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں کیا گیا جب رات کو وہاں کوئی موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

مقامی پولیس اہلکار صفدر خان نے کہا کہ رواں ماہ اسی علاقے میں ایک اور اسکول کو بری طرح نقصان پہنچانے کے بعد تخریب کاری کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

فوری طور پر کسی نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن شبہ ہے کہ اسے عسکریت پسندوں، خاص طور پر پاکستانی طالبان نے تباہ کیا ہے۔ پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیے۔

چند برس پہلے، اُس وقت بھی پاکستان کے شمال مغرب میں لڑکیوں کے اسکولوں پر متعدد حملوں ہوئے تھے، جب پاکستانی طالبان سوات سمیت متعدد قبائلی علاقوں پر قابض تھے۔ پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہا جاتا ہے، کو حالیہ برسوں کے دوران سوات اور اس سے ملحق دیگر علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیے
پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیےتصویر: DW/A. Sattar

لیکن پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے پاکستانی طالبان کو بھی حوصلہ ملا ہے اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی طالبان پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف بھی پے در پے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے پاس وہ جدید ہتھیار بھی ہیں، جو نیٹو فورسز افغانستان میں چھوڑ گئی تھیں۔

ایک ہفتہ قبل شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے دو خونریز حملوں میں کم از کم سات پاکستانی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ ان حملوں میں دو سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔

شمالی وزیرستان میں سات سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی وجہ بننے والے دونوں حملے اس واقعے کے محض چند ہی روز بعد کیے گئے، جس میں عسکریت پسندوں نے اسی ضلع میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر بم حملہ کیا تھا۔

وزیرستان ماضی میں وفاقپاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے ان چھ نیم خود مختار خطوں میں سے ایک ہے، جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ چند برس قبل ان قبائلی علاقوں کو اضلاع کا درجہ دے کر باقاعدہ طور پر صوبے خیبر پختونخوا میں شامل کر لیا گیا تھا۔

ا ا / ع ت )اے پی، ڈی پی اے)

پاکستانی طالبان اسلام آباد اور کابل کے مابین جنگی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں