جنوبی افریقہ: نسلی امتیاز کا عروج اور زوال
جنوبی افریقہ کی جدید تاریخ کی عکاسی جس طرح فوٹو گرافی سے ہوتی ہے، شاید ہی کسی دوسرے طریقے سے اس تکلیف دہ دور کو بیان کیا جا سکتا ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت سے آزادی کے تیس سال مکمل ہونے پر مڑ کر تاریخ کو دیکھتے ہیں۔
ٹھیک تیس برس قبل ستائیس اپریل سن 1994 میں جنوبی افریقہ میں پہلی مرتبہ سیاہ فام ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جس کی بدولت نیلسن منڈیلا اس افریقی ملک کے صدر منتخب کیے گئے۔ یوں اس ملک میں نسلی تعصب پر مبنی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
سیاہ فام فوٹو گرافر پیٹر مگابے کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ جرمن فوٹو گرافر ژورگن شادیبرگ نے مگابے کو فوٹو گرافی کے ہنر بتائے تھے۔ لیجندڑی میگزین DRUM میں ڈرائیوار کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرنے والے مگابے نے بعدازاں اپنی فوٹو گرافی سے ’نسلی عصبیت کے خلاف بغاوت‘ کے کئی اہم واقعات کو فلمبند کیا، جو اب ان کی پہچان بن چکے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم حکومت نے سن 1950میں رہائشی علاقوں کو نسلی بنیادوں پر تقیسم کرنا شروع کیا۔ تب سیاہ فاموں کے اکثریتی علاقے صوفا ٹاون سے تمام مقامی شہریوں کو نکال دیا گیا اور اسے صرف سفید فاموں کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اس کا نام ’ٹری آمپف‘ رکھ دیا گیا۔
مقامی سیاہ فاموں کو روانہ طویل سفر کر کے اپنے دفاتر پہچنا پڑتا تھا۔ مسافروں سے کچھا کھچ بھری ٹرینوں میں مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ فوٹو گرافر سانتو موفوکینگ نے اسی دوران کئی لمحات کو تصویروں میں قید بھی کیا۔
غداری کے ایک مقدمے میں 1956ء میں جن 156 سیاہ فاموں کو غداری کا مرتکب قرار دیا گیا، ان میں نیلسن منڈیلا بھی شامل تھے۔ ایک برس قبل ہی انہوں نے نسلی امتیاز پر مبنی قوانین کے خاتمے پر زور دیا تھا۔
جنوبی افریقہ میں 1976ء میں ایک مظاہرے کے دوران بارہ سالہ ہیکٹر پیٹریسن ہلاک ہو گیا تھا۔ فوٹو گرافر سام نزما کی یہ تصویر اس واقعے کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ یہ تصویر دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہوئی ہے۔
ان تصاویر میں ایسے دور کو بیان کیا گیا ہے، جب لمحے لمحے میں تکالیف پنہاں تھیں۔ Craddock Four کی تدفین پر لی گئی ایک تصویر۔ 1985ء میں اپوزیشن کے چار ارکان کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں معلوم ہوا تھا کہ جنوبی افریقہ کی دفاعی افواج اس واقعے میں ملوث تھی۔
تین مئی 1994ء کو جنوبی افریقی عوام کے جذبات دیکھنے کے قابل تھے۔ اس وقت انکشاف ہوا تھا کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بننے والے ہیں۔ منڈیلا کے صدر بنتے ہی وہاں کی مقامی سیاہ فام آبادی کے نصیب بھی بدل گئے اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
جنوبی افریقہ میں کئی عشروں تک مقامی آبادی تعلیم، صحت اور اقتصادی ترقی سے محروم رہی۔ نسلی امتیاز پر مبنی قوانین کے خاتمے کے بعد اب جنوبی افریقہ ایک جمہوری ریاست بن چکی ہے۔ تاہم ماضی کے زخم اب بھی تازہ معلوم ہوتے ہیں۔