1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لائف اسٹائلجرمنی

جرمنی میں مقابلہ حسن، ٹرانس وومن فائنل میں

1 مارچ 2023

انیس سالہ ٹرانس وومن ’ساسکیا فان بارگن‘ مِس جرمنی مقابلے کے فائنل میں پہنچ گئی ہیں۔ اس طرح جرمنی میں قومی مقابلہ حسن کا روایتی تشخص بھی بدل رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4O6tn
مقابلے کے منتظمین کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 15 ہزار خواتین نے اس مرتبہ مِس جرمنی بننے کے لیے مقابلے میں شرکت کی درخواستیں دی تھیں
مقابلے کے منتظمین کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 15 ہزار خواتین نے اس مرتبہ مِس جرمنی بننے کے لیے مقابلے میں شرکت کی درخواستیں دی تھیںتصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture alliance

مقابلے کے منتظمین کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 15 ہزار خواتین نے اس مرتبہ مِس جرمنی بننے کے لیے مقابلے میں شرکت کی درخواستیں دی تھیں۔ انتظامیہ کی جانب سے فائنل کے دس امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور ان میں سے ایک امیدوار جرمن میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بن چکی ہیں اور اس امیدوار کا نام 'ساسکیا فان بارگن‘ ہے۔

یہ 19 سالہ ٹرانس وومن لوئر سیکسنی میں اپنے والدین اور تین چھوٹی بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ فان بارگن کے گاؤں کا نام ''فریڈرش فیہن‘‘ ہے۔

فان بارگن کو پانچ سال کی عمر سے ہی معلوم تھا کہ وہ ایک لڑکی ہے۔ تب بھی وہ لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے اور کپڑے پہننے کو ترجیح دیتی تھیں۔ اس ٹرانس وومن کا اپنے والدین کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا، '' ان کو یہ معلوم تھا اور وہ ہر لمحے میرے معاون اور مدد گار رہے۔‘‘

تاہم اپنی مشکلات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسکول میں چیزیں ہمیشہ آسان نہیں تھیں اور وہ طعنوں سے بچنے کے لیے لڑکوں کے کپڑے پہنتی تھیں۔

مس امریکا مقابلہٴ حسن کی ایک صدی، کیا کچھ بدلا ہے؟

گیارہ برس کی عمر میں فان بارگن نے بلوغت روکنے کے لیے دوائی لینا شروع کر دی اور اس کے دو سال بعد ''نسائی ہارمون تھراپی‘‘ کی گئی۔ اس کے بعد اس نے سرعام بتایا کہ وہ ٹرانس وومن ہے اور اس کے جاننے والوں نے اسے قبول بھی کیا، جس سے اس کی زندگی مزید آسان ہو گئی۔

مقابلے کے منتظمین کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 15 ہزار خواتین نے اس مرتبہ مِس جرمنی بننے کے لیے مقابلے میں شرکت کی درخواستیں دی تھیں
مقابلے کے منتظمین کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 15 ہزار خواتین نے اس مرتبہ مِس جرمنی بننے کے لیے مقابلے میں شرکت کی درخواستیں دی تھیںتصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture alliance

بعدازاں وقت آنے پر فان بارگن نے سرجری کروائی اور اپنے لیے ساسکیا کا نام منتخب کیا۔

جرمنی میں مِس جرمنی کا امیج بھی بتدریج بدل رہا ہے۔ سن 2019ء میں یہ شرط ختم کر دی گئی تھی کہ مقابلہ حسن میں شریک امیدواروں کو بکینی پہنتے ہوئے کیٹ واک کرنا ہے۔ اسی طرح قد اور وزن بھی اب اہم نہیں رہے۔ ماہرین کے مطابق اب ''مضبوط شخصیت اور حوصلہ مند خواتین‘‘ کی پذیرائی زیادہ اہم ہے۔

'مس ہٹلر' مقابلہ حسن میں حصہ لینے پر تین برس قید کی سزا

تاہم فان بارگن مس جرمنی کے مقابلے میں اب تک آنے والی پہلی ٹرانس وومن نہیں ہیں۔ گزشتہ برس ہینوور سے تعلق رکھنے والی ایک ٹرانس وومن نے بھی فائنل میں جگہ بنائی تھی لیکن وہ مقابلہ جیت نہیں سکی تھیں۔ دوسری جانب فان بارگن  کو امید ہے کہ اس مرتبہ وہ مقابلہ حسن کا تاج اپنے سر سجائیں گی۔

ا ا / ع ب (ڈی پی اے)