1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجرمنی

جرمنی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا انکار قابل سزا جرم

24 نومبر 2022

ایک نئی قانونی ترمیم کا مقصد دنیا میں کہیں بھی ہونے والے جنگی جرائم اور نسل کشی سے انکار کو قابل سزا جرم قرار دینا ہے۔ قانونی اسکالرز اور مورخین کی طرف سے اس ترمیم پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4K0m6
Ukraine Ermittler Forensik Butscha
تصویر: Carol Guzy/ZUMA/dpa/picture alliance

یوکرین کے شہر بوچہ میں مبینہ جنگی جرائم، یزیدیوں کی نسل کشی اور چین میں ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت دنیا بھر کے تنازعات میں ہونے والے مظالم کی فہرست طویل ہے۔ اس کے باوجود بار بارکچھ لوگ کبھی ان جرائم کی سنگینی کو کم کرتے ہیں یا ان کے وقوع پزیر ہونے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ جرمنی میں قانون ساز وں کو اب یہ صورتحال برداشت نہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر ایسے بیانات نفرت پھیلانے یا عوامی امن خراب کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو ان کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

Deutschland Protest rusische Invasion in der Ukraine
یوکرینی جنگ میں روس کو نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہےتصویر: Jens Krick/Flashpic/picture alliance

اس سلسلے میں جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ُبنڈس ٹاگ نے اکتوبر کے آخر میں ایک ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا اور جمعہ کوریاستی حکومتوں کی نمائندگی  کرنے والے ایوان بالا یا ُبنڈس راٹ میں بھی اس ترمیم کی منظوری دی جائے گی۔ جنگی جرائم اور نسل کشی کے واقعات کی قبولیت یا ان سے انکار اور ان کی شدت میں کمی لا کر بیان کرنا، اب جرمن قانون کے تحت ''لوگوں کو اکسانے‘‘ کے زمرے میں ایک جرم  ہو گا۔

یونیورسٹی آف آگسبرگ کے ایک قانونی اسکالر مائیکل کوبیسیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو  مضبوط رہنما خطوط فراہم کرنے سے متعلق تھا کہ وہ کس طرح اور کس چیز کی تحقیقات کر سکتے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر یہ یورپی کمیشن کے مطالبات پورا کرنے کے بارے میں تھا اور اب یہ ہو گیا ہے۔‘‘

برلن عمل کرنے پر مجبور

درحقیقت جرمنی یہ اقدام منظور کرنے میں کوئی جلدی نہیں تھی۔ یورپی یونین  نے نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے 2008 ء میں ایک ہدایت جاری کی تھی اور جرمن حکومت یورپی یونین کی ہدایات کی خلاف ورزی پرکارروائی کے خطرے کی وجہ سے اب رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوئی۔

آن لائن نفرت کے شکار افراد کی مدد کرنے والی ایک تنظیم HateAid کی چیف وکیل جوزفین بالون کے لیے تبدیلی صحیح وقت پر آئی ہے۔ بیلن نے ڈی ڈبلیوکو بتایا،''میں یہ دیکھ کر بہت پرجوش ہوں کہ ترمیم کیسے عمل میں آئے گی اور میں یقینی طور پر اس کے لیے ایک عملی گنجائش دیکھ رہی ہوں۔ ابھی یوکرین کی جنگ کے تناظر میں، ہم کچھ چیزیں دیکھتے ہیں جو اس کی زد میں آسکتی ہیں۔ میں کہوں گی کہ یہ ترمیم ایسے وقت میں آئی ہے جب یہ کافی متعلقہ ہو سکتی ہے۔‘‘

Berlin Bundestag | Generaldebatte in der Haushaltswoche
جرمن قانون ساز چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم اور نسل کشی کے واقعات کا انکار کرنے والوں اور انہیں معمولی کر کے بتانے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

تبدیلی کے بعد شدید تنقید

قانونی اسکالرز اور مورخین کی طرف سے اس ترمیم پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس ترمیم میں شفافیت کے فقدان کی شکایت کی کیونکہ اس ترمیم کو کسی پیشگی اطلاع  یا بحث کے بغیر منظور کیا گیا تھا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اس کے مندرجات غیر ضروری طور پر آزادی اظہار کو کم کرتے ہیں۔

مائیکل کوبیسیل ان اعتراضات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے ،''میرے خیال میں پوری بحث اس پرانی کہاوت کی ایک بہترین مثال ہے:کچھ بھی نہیں کے بارے میں بہت کچھ۔ اس طرح کی ترمیم کے پیچھے کوئی اسکینڈل نہیں  کوبیسیل کو اس ترمیم میں آزادی اظہار کی کوئی خاص خلاف ورزی نظر نہیں آتی ہے۔

جنگ کی دھند

لیکن وہ ایک تنقید کو سمجھ سکتے ہیں: جاری تنازعات کا حوالہ۔ جرمن ترمیم واضح طور پر موجودہ تنازعات میں جنگی جرائم کے انکار کے قابل سزا ہونے کی اجازت دیتی ہےحالانکہ یورپی یونین نے اس جرم کو صرف ماضی کے جنگی جرائم تک محدود رکھنے کا اختیار کھلا چھوڑ دیا ہے، جو عدالت میں تحقیقات کے بعد  ثابت ہو چکے ہیں۔

یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ جنگ کے دوران سچائی شاذ و نادر ہی واضح ہوتی ہے، اور جنگ کے دوران لگائے گئے الزامات اکثر جھوٹے نکلے ہیں۔ کوبیسیل کے مطابق عدالتیں صرف اس وقت فعال ہوں گی جب جنگ کی دھند کسی حد تک ختم ہو جائے گی،''جب حقائق اتنے واضح ہو جاتے ہیں کہ استغاثہ کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے پاس کافی ثبوت بھی ہیں۔‘‘

Ukraine-Krieg | Bachmut | zerstörte Gebäude
یوکرین جنگ کے دوران روس نے بڑے پیمانے پر عام شہری علاقوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایاتصویر: Francisco Seco/AP Photo/picture alliance

خارجہ پالیسی میں تناؤ کا امکان

یوکرین پر حملے اور آف لائن اور آن لائن دونوں طرح کے رد عمل  سے ظاہر ہوتا ہےکہ جنگی جرائم کے انکار اور انہیں  معمولی کر کے بیان کرنے کو ترمیم کا حصہ بنانا غیر اہم نہیں۔لیکن اس کے سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔ ہیمبرگ یونیورسٹی میں فوجداری قانون کے اسسٹنٹ پروفیسر عزیز ایپک کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو جرمن حکومت کے لیے''خارجہ پالیسی کے نازک حالات‘‘پیدا ہو سکتے  ہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ایپک نے کہا کہ اگر یہ ترمیم لاگو ہو جاتی ہے تو جرمن ضلعی عدالتوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت چینی جرائم پر بالواسطہ طور پر فیصلہ سنانا پڑ سکتا ہے۔ اس کے بعد جرمن حکومت کواب تک کے مقابلے میں زیادہ واضح پوزیشن لینی پڑ سکتی ہے۔

اگر بنڈس راٹ اس ترمیم کو منظور کر لیتا ہے تو جرمن عدالتیں موجودہ جنگی جرائم پر فیصلہ دے سکیں گی۔ جوزفین بالون کے لیے یہ اہم ہے کہ ایسا جرم کے تناسب کے حوالے سے کیا جانا چاہیے۔ وہ یہ مانتی ہے کہ ''نفرت پر اکسانا‘‘ ایک انتہائی پیچیدہ جرم ہے۔ اس میں بہت سی اصطلاحات تشریح کے لیے کافی گنجائش چھوڑتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سرکاری وکیل اور عدالتیں پہلے ہی بہت محتاط ہیں اور صرف بہت کم تعداد میں ثابت شدہ مقدمات میں الزامات اور ٹرائل کی اجازت دیتی ہیں۔

ش ر ⁄ ع ت (بن نائٹ)

یہ  آرٹیکل اصل میں جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا