1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر شولس امریکی صدر بائیڈن سے ملیں گے

3 مارچ 2023

جمعے کے روز ہونے والی یہ ملاقات کسی رسمی تقریب کے بغیر ہوگی حتی کہ وہ کوئی مشترکہ پریس کانفرنس بھی نہیں کریں گے۔ دونوں رہنما یوکرین کی جنگ اور چین کی ممکنہ مداخلت پر تبادلہ خیال کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4OCEl
G7-Gipfel - Abschluss | Joe Biden und Olaf Scholz
تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

ان خدشات کے درمیان کہ چین روس کو ہتھیار بھیجنا شروع کرسکتا ہے، جرمن چانسلر اولاف شولس جمعے کے روز وائٹ ہاوس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے نجی بات چیت کرنے والے ہیں۔

شولس جمعرات کو واشنگٹن  کے لیے روانہ ہوئے اور وائٹ ہاوس میں بائیڈن کے ساتھ ان کی ایک گھنٹے کی ملاقات ہوگی۔ جرمن چانسلر اپنے ساتھ کوئی میڈیا وفد لے کر نہیں گئے ہیں، جو اپنے آپ میں ایک غیر معمولی بات ہے۔

گزشتہ برس روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد جمعہ کو شولس کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ ہے، جس میں جنگ کی صورت حال  بات چیت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

شولس اور بائیڈن ممکنہ طورپر اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ یوکرین کی جنگ میں کییف کی کس طرح بہتر طورپر حمایت جاری رکھی جائے لیکن اس میں چین کی ممکنہ شمولیت مسئلے کو مزید پیچیدہ بناسکتی ہے۔

 چانسلر شولس نے چین سے مطالبہ کیا کہ روسی فوج کے انخلاء کے لیے دباو ڈالنے کے لیے ماسکو پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں
 چانسلر شولس نے چین سے مطالبہ کیا کہ روسی فوج کے انخلاء کے لیے دباو ڈالنے کے لیے ماسکو پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریںتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

امریکہ اور جرمنی چین سے کیوں پریشان ہیں؟

 چانسلر شولس نے جمعرات کو جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا کہ "آپ روسی فوج کے انخلاء کے لیے دباو ڈالنے کے لیے ماسکو پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔اور جارح روس کو ہتھیار فراہم نہ کریں۔"

وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بھی جمعرات کو کہا کہ امریکہ کو ابھی ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آیا ہے کہ بیجنگ روس کو ہتھیار بھیجنے کے فیصلے پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس طرح کے کسی اقدام سے یوکرین میں روسی جنگ کے مزید طویل ہونے کا امکان ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔

یوکرین سے روسی افواج کی پسپائی اس سال مشکل، امریکی جنرل

بیجنگ کے حوالے سے جرمنی اور امریکہ کے مختلف موقف کی وجہ سے یہ دونوں ملکوں میں اختلافات پیدا کرسکتا ہے۔

چین جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور امریکہ کی جانب سے چین پر پابندیاں عائد کرنے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر وہ روس کو ہتھیار بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تو برلن کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ برلن کا کہنا ہے کہ بیجنگ امن قائم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔

جرمنی اور امریکہ میں " گہرے دوستانہ تعلقات"

جرمنی اور امریکہ کے رہنماوں کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت ہورہی ہے جب امریکی قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ یوکرین کو صرف اس لیے ابرامز ٹینک بھیجنے سے اتفاق کیا تھا کیونکہ جرمنی نے اپنے لیوپارڈ ٹو ٹینک بھیجنے کی شرط رکھی تھی۔

جرمنی اپنے لیوپارڈ ٹو ٹینک یوکرین کو دینے پر رضامند، ایک رپورٹ

شولس گرین ٹیکنالوجیز کے لیے امریکی سبسڈی کا معاملہ بھی بائیڈن کے سامنے اٹھا سکتے ہیں۔ یہ افراط زر میں کمی قانون (آئی آر اے) کا حصہ ہے۔ اس سے یورپ میں امریکی اتحادیوں میں غصہ ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے ان کی کمپنیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ انہیں روسی حملے کے اثرات کی وجہ سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جرمن عوام میں سب سے زیادہ تشویش کی وجہ روس اور چین، سروے

وائٹ ہاوس نے گزشتہ ماہ شولس کے دورے کو "امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی جرمنی کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات کی تصدیق کرنے کا ایک موقع" قرار دیا تھا۔

یوکرین کو اب تک کس ملک نے کتنے ہتھیار مہیا کیے؟

جرمن مارشل فنڈ نامی تھنک ٹینک کے برلن بیورو کی سربراہ سدھا ڈیوڈ ولپ کا کہنا ہے کہ جمعے کو ہونے والی ملاقات "بحران کی علامت نہیں ہے۔ یہ دونوں رہنماوں کے درمیان ذاتی تعلقات کو مستحکم کرنے کا موقع ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "واشنگٹن اب بھی برلن کو یورپ میں اہم فوجی طاقت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ یہ صورت حال کا جائزہ لینے کا ایک موقع ہے۔"

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)