1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن پولیس سے نسل پرستی اورامتیازی سلوک کے سدباب کی کوششیں

14 اپریل 2024

جرمن پولیس میں نسل پرستانہ عناصر کی موجودگی کے حوالے سے متعدد شکایات سامنے آنے کے بعد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نیا دفتر قائم کیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو نےاس ادارے کے سربراہ کے اختیارات اور درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eiXd
Deutschland Polizisten beim Christopher Street Day
تصویر: Rainer Jensen/dpa/picture alliance

جرمن پارلیمنٹ نے مارچ میں سابق پولیس افسر اُولی گروئچ کو پولیس کے محکمے میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے واقعات کے سدباب کے لیے قائم کیےگئے وفاقی پولیس کمشنر کے نئےعہدے کے لیے منتخب کر لیا۔ اس عہدے کی خود مختار حثیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے گروئچ کو حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی) کے سیاست دان اور جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا بنڈسٹاگ کے رکن کی حیثیت سے اپنی نشست سے استعفیٰ دینا پڑا۔

گروئچ نے 21 سال تک ایک پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔  اب وہ وفاقی پولیس میں امتیازی سلوک کے واقعات کے بارے میں شکایات کے لیے رابطہ کار ہوں گے۔ اگرچہ وہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی کسی قابل ذکر بدسلوکی کی نشاندہی کر سکتے ہیں تاہم اس الزام پر سزا کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ پولیس کے محکمے یا عدالتوں کو ہی کرنا ہوگا۔

نو منتخب وفاقی جرمن پولیس کمشنر اُولی گروئچ
نو منتخب وفاقی جرمن پولیس کمشنر اُولی گروئچتصویر: dts Nachrichtenagentur/IMAGO

میڈیا سروس Mediendienst Integration کے زیر اہتمام برلن میں ایک پریس کانفرنس میں گروئچ  نے اپنی نئی ذمہ داری کے پہلے تین ہفتوں میں موصول ہونے والی شکایات کی تعداد پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایک دن میں تین سے چار گذارشات موصول ہوئیں، جن کی کل تعداد اب 70 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ان گزارشات میں سے تقریباً 30 فیصد پولیس جبکہ باقی عام لوگوں کی جانب سے موصول ہوئیں۔

ایک متنوع ٹیم کی ضرورت

گروئچ کے عہدے کی میعاد پانچ سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران ایک چیز، جو وہ سب سے بڑھ کر کرنا چاہتے ہیں وہ ہے اعتماد پیدا کرنا اور گروئچ کے بقول اس کے لیے انہیں ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہوگی، جو ممکنہ حد تک متنوع ہو۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''مجھے سیاہ فام، عرب اور ایل جی بی ٹی کیو آئی کمیونٹی کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں  کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ سابق پولیس افسر ان لوگوں کے ساتھ ایک ٹیم بنانا چاہتے ہیں، ''جنہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے یا ان کا تعلق ایسے گروپ سے ہے، جس کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘ تاہم وہ ابھی تک اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے سے بہت دور ہیں۔ ان کے ماتحت اٹھارہ میں سے دس پوسٹیں پُر ہو چکی ہیں لیکن ان میں ابھی تک ایک بھی ہم جنس پسند شخص شامل نہیں۔

Deutschland | Letzte Generation | Demonstration in Hafen Mukran
جرمن پولیس کی جانب سے بعض مواقعوں پر مظاہرین کے خلاف بھی انتہائی سختی سے پیش آنے کی شکایات بھی موجود ہیںتصویر: Hesham Elsherif/Anadolu/picture alliance

گروئچ کا کہنا تھا، ''میں ان کا انتخاب کرنا چاہوں گا، جو میرے خیال میں ملازمت کے لیے بہترین ہیں۔" گروئچ جلد ہی انسداد نسل پرستی کے ماہر عبدالرحیم ڈیالو سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 ڈیالو ڈائیاسپورا پالیسی انٹرایکشن نامی ایک غیر سرکاری ادارے کے ڈائریکٹر اور ترجمان ہیں۔  وہ  1998ء میں ایک طالب علم کے طور خود نسل پرستانہ رویے کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ جرمن شہر ڈسلڈورف کے مرکزی ٹرین اسٹیشن سے گزر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے خود کو زمین پر پڑا پایا۔

ڈیالو اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''تین پولیس افسران میرے اوپر تھے، میں سانس نہیں لے سکتا تھا، میں شدید درد میں مبتلا تھا اور سب سے بڑھ کر میں ذلت کے احساس اور صدمے کا شکار تھا۔‘‘  انہوں نے مزید کہ ان کے ساتھ پولیس کے اس ''سلوک کی وجہ یہ تھی کہ میں سیاہ فام ہوں۔‘‘

جب پولیس افسران کو معلوم ہوا کہ ڈیالو ایک جرمن شہری ہیں تو انہوں نے ڈیالو کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھنے کو کہا۔ ڈیالو کے مطابق، ''میں نے احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘

شکایات دفاتر کی ضرورت

جرمنی کے نقشے پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس ضمن میں اب بھی بہت کچھ کرنا ضروری ہے۔ جرمنی کی سولہ ریاستوں میں سے صرف رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور شلیسوگ ہولشٹائن پولیس کمشنر کو پولیس اور استغاثہ کی فائلوں تک غیر محدود رسائی کی اجازت دیتی ہیں۔

Berlin Protest vor Polizei gegen Corona-Politik
نئے وفاقی پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے پہلی کوشش یہ ہو گی کہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کیا جائے تصویر: Markus Schreiber/AP/picture alliance

 برلن وہ واحد ریاست ہے، جہاں پولیس کمشنر اپنی تحقیقات خود کر سکتے ہیں۔ پولیس میں نسل پرستی کے بارے میں مطالعات اب وفاقی اور ریاستی دونوں سطحوں پر موجود ہیں۔ برلن اسکول آف اکنامکس اینڈ لاء (HWR) کے ماہر سیاسیات ہارٹمٹ ایڈن کے مطابق 2009ء کے بعد سے اس شعبے میں بہت کچھ ہوا ہے، جب انہوں نے امتیازی سلوک پر تحقیق شروع کی تھیں۔ "اس وقت پولیس اکیڈمیوں میں پولیس اور نسل پرستی جیسے موضوعات پر بات کرنا ممنوع تھا۔‘‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جرمن پولیس فورس میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کی دیگر اقسام دراصل کس قدر وسیع ہیں۔ ریاست بریمن کی پولیس کمشنر زرمین رائیڈل اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''عام طور پر متاثر افراد کے لیے اس بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہو تا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، "لوگوں تک پہنچنا، انہیں اپنی کہانی سنانے کے لیے یہ ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔" ریڈل نے محسوس کیا ہے کہ بیداری پیدا کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود، نسل پرستی کے بارے میں بات کرنا اب بھی اکثر پولیس میں دفاعی انداز سے ملتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ یہ سمجھیں کہ نسل پرستی صرف دائیں بازو کے انتہا پسند نیٹ ورکس کے ساتھ ہی جڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ پولیس کی غیر ارادی طور پرکی گئی کارروائیوں یا سوچ کے بھی نسل پرستانہ اثرات ہوتے ہیں۔

اس میں جلد کے رنگ یا دیگر بیرونی خصوصیات پر مبنی بے ترتیب شناختی جانچ شامل ہو سکتی ہے، جسے نسلی پروفائلنگ کہا جاتا ہے۔ ایڈن ایسی پولیسنگ کو نسل پرستی کی ایک ''کلاسیک‘‘ مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کےسکیورٹی چیک "مخصوص تاثرات کو اپنانے اور تعصب" کے ساتھ جڑے ہیں۔ جن لوگوں کو اس طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ اپنی ریاست کے کمشنر اور اب وفاقی سطح پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مارسیل فیورسٹیناؤ (ش ر، ع ت)

جرمنی میں احتجاج: آپ کے حقوق کیا ہیں؟