1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن معاشرے کو خاندان کے متبادل کی تلاش

14 فروری 2024

عمر رسیدہ آبادی اور تنہا زندگی گزارنے والے بیشتر لوگوں کی وجہ سے، جرمن حکومت ایک نیا قانونی طریقہ کار متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ غیر رومانوی رشتوں والے افراد کی ایک دوسرے کی ذمہ داری اٹھانے میں مدد کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/4cNwP
جرمن خواتین
بل کا نام 'کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی' ہے، جس کا مقصد ایک ایسا نیا قانونی طریقہ کار وضع کرنا ہے، جس کے تحت دو سے چھ افراد کے گروپ میں لوگ ایک دوسرے کے لیے ذمہ داری اٹھا سکیں گے تصویر: XINHUA/imago

جرمنی میں لوگوں میں طرز رہائش، محبت، والدین اور عمر کے متعلق نظریہ تبدیل ہو رہا ہے۔ لیکن ایک ایسے معاشرے میں، جہاں ہر چار میں سے ایک شخص یہ کہتا ہے کہ وہ تنہا ہے، یہ سوال اور اہم ہے کہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کون اور کیسے کرے۔ چاہے وہ بچوں کی دیکھ بھال ہو یا عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال۔ ایسے معاشرے میں اب بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ہر دوسرے جرمن باشندے کو بطور صارف اگلے دس سال میں ابتر حالات کا خوف

جرمن وزیر انصاف مارکو بش مین نے اس حوالے سے خاندانی اصلاحات پر مبنی ایک بل کو ''ممکنہ طور پر دہائیوں میں خاندانی قانون میں سب سے بڑی اصلاحات'' کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس پر اب جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے بھی اتفاق کر لیا ہے۔

جرمنی میں ہر روز ہی اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے

اس بل کا نام ''کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی'' ہے، جس کا مقصد ایک ایسا نیا قانونی طریقہ کار وضع کرنا ہے، جس کے تحت دو سے چھ افراد کے گروپ میں لوگ ایک دوسرے کے لیے قانونی اور خاص طور پر طبی ایمرجنسی کی صورت میں ذمہ داری اٹھا سکیں گے۔

جرمنی کے معمر شہری خود کو معاشرے میں الگ تھلگ کیوں محسوس کرتے ہیں؟

 مارکو بش مین کہتے ہیں: '' کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی میں ایک اضافی قدر یہ بھی شامل ہے، کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ ایک سماجی بندھن اور ایک ڈھانچے میں شامل ہو کر اسے ایک مثبت نام دیتا ہے۔''

'تجربے کے لیے خالی میدان'

ماہر عمرانیات اینڈریا نیورلا، جنہوں نے قربت اور رشتوں کے معاملات پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں، ''سچ بات یہ ہے کہ جدید رومانوی رشتوں میں کوئی تحفظ نہیں ہے اور اکثر لوگ یہ بہت مشکل طریقے سے سیکھتے ہیں۔'' 

مشرقی جرمنی کا ’غیر اخلاقی‘ ادب

نیورلا کا کہنا ہے کہ ایک عمر رسیدہ معاشرے میں، اس سوال پر کہ ہمیں ایک ساتھ کیسے رہنا چاہیے اور کس قسم کے سپورٹ نیٹ ورکس پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں، اس پر مکمل طور پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے تحت دو لوگوں کے درمیان رومانوی محبت کے غالب رشتہ ماڈل کو مرکزی کردار کی حیثیت سے جدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر پانچواں جرمن شہری، ٹیٹو کا حامل

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں وہ کہتی ہیں: ''جب ہم واقعی ایک اجتماعی گروپ کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو میں جدید معاشرے میں پہلے سے موجود کسی ایسے تصور کے بارے میں نہیں جانتی، جس میں رضاکارانہ طور پر یا قانونی حیثیت سے داخل ہوا جا سکے۔ ہمیں لوگوں کو (بغیر رومانی تعلقات کے بھی) ایک ساتھ رہنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔''

جرمنی
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی کا قانون عمر رسیدہ افراد اور تنہا والدین کی زندگی کو آسان بنانے میں مدد گار ہو گا۔تصویر: Rüdiger Wölk/IMAGO

وہ کہتی ہیں: اس کے لیے ''ہمیں تخلیقی ہونا پڑے گا اور ہمیں ریاست کی طرف سے مراعات کی بھی ضرورت ہو گی، تاکہ ہم ان مختلف شکلوں کو آزما سکیں۔ دراصل کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی تجربہ کرنے کے لیے ایک آزاد میدان ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ لوگ کمیونٹی کی ان نئی شکلوں کے ساتھ اس طرح تجربہ کریں، جو ریاست کی طرف سے تسلیم شدہ ہونے کے ساتھ ہی قانونی طور پر محفوظ بھی ہو، (جیسا کہ شادی کے رشتے میں ہے)۔

'ایسی پیشکش جس کا کسی نے مطالبہ نہیں کیا'

حکومت کا کہنا ہے کہ کمیونٹی آف ریسپانسیبلٹی کا قانون عمر رسیدہ افراد اور تنہا والدین کی زندگی کو آسان بنانے میں مدد گار ہوگا۔ تاہم کئی حلقے اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں واقعی کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔

جرمنی میں جمہوریت خطرے میں ہے، اسرائیلی سفیر

نیشنل ایسوسی ایشن آف سینیئر سٹیزنز آرگنائزیشنز (بی اے جی ایس او) کی چیئر پرسن ریجینا گورنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بزرگوں کے لیے کوئی زیادہ تبدیل آئے گی۔ یہاں پہلے سے ہی ذرائع موجود ہیں، جیسے کہ ہیلتھ کیئر پراکسی، جو نوٹری استعمال کے مقابلے میں بہت کم بیوروکریٹک ہونے کے ساتھ ہی کم وقت طلب بھی ہے۔''

سائنٹیفک انسٹیٹیوٹ آف ایسو سی ایشن پرائیویٹ ہیلتھ کیئر انشورنس (ڈبلیو آئی پی) کے مطابق عمر رسیدہ افراد کے اکیلے رہنے کا اوسط آبادی کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ سن 2022 میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تقریباً 32 فیصد لوگ یورپی یونین میں تن تنہا رہتے تھے، جرمنی میں یہ تعداد 34 فیصد کے قریب تھی۔ ادارے نے پیش گوئی کی ہے کہ 2030 تک جرمنی میں 5.75 ملین افراد کو دیکھ بھال کی ضرورت ہو گی، جو 2050 تک بڑھ کر 7.25 ملین تک پہنچ جائے گی۔

گورنر کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے بجائے کیئر گیور لیو ایکٹ میں اصلاحات دیکھنے کو ترجیح دیں گی، جو فی الحال صرف خاندان کے قریبی ارکان کو ہی بیمار رشتہ دار کی دیکھ بھال کے لیے بغیر تنخواہ کی کمی کے کام سے چھٹی لینے کی اجازت دیتا ہے۔

سنگل پیرینٹ کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایک اور فاؤنڈیشن 'ہیڈی تھیمن' بھی تقریبا اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتی ہے۔ تھیمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سنگل پیرینٹ کو اپنی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بہت مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم یہاں جس پیشکش کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ایک ایسی پیشکش ہے، جس کا کوئی مطابہ نہیں کر رہا ہے۔''

انسٹیٹیوٹ آف جرمن اکانومی کے مطابق، آج جرمنی میں تقریباً 33 فیصد بچے غیر شادی شدہ والدین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں، جو کہ سن 1998 کی شرح 20 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ سن 2021 میں طلاق کی شرح 39.9 تک تھی۔

تھیمن کو تشویش ہے کہ وہ لوگ جو رومانوی رشتے میں تو ہیں لیکن قانونی طور پر شادی نہیں کرنا چاہتے، وہ شادی کے متبادل کے طور پر نئے قانونی طریقہ کار کو استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن بہت کم قانونی تحفظات کے ساتھ ایسا کریں گے۔

اس قانون کے نکتہ چین کیا کہتے ہیں؟

جرمنی میں حزب اختلاف کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی بھی معاشرے سے متعلق اس نئی پیشکش پر نکتہ چینی کر رہی ہیں۔ سی ڈی یو کے ترجمان گنٹر کرنگ کا کہنا ہے کہ نیا قانونی طریقہ کار تعدد ازدواج کے لیے بھی پچھلا دروازہ کھول سکتا ہے۔ فی الحال جرمنی میں صرف بیرون ملک قانونی طور پر ہونے والی متعدد شادیوں کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے ایک جرمن میڈیا گڑوپ کو بتایا کہ اس طرح کی 'ذمہ دار کمیونٹی' میں لوگوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکے گا۔

شادی اور خاندان کو جرمن آئین یا ''بنیادی قانون'' کے تحت محفوظ حیثیت حاصل ہے۔ حکومت کا زور اس بات پر ہے کہ نئی اصلاحات غیر رومانوی تعلقات میں رہنے والے لوگوں کے لیے ہیں، اور خاص طور پر ان عمر رسیدہ افراد کے لیے، جو ''شادی کی بندھن میں '' نہیں ہے۔

 اس کے تحت نہ تو ٹیکس میں کوئی رعایت دی جائے گی اور نہ ہی وراثت کے قانون میں کوئی تبدیلی ہو گی۔

'محض ایک خواب ہے'

نیورلا کہتی ہیں کہ وہ اس کے برعکس فرقہ وارانہ ہم آہنگی، یکجہتی اور ان تجرباتی شکلوں کو دیکھنا چاہیں گی، جو ریاست کی طرف سے حمایت یافتہ ہوں۔ تاہم انہیں تشویش ہے کہ یورپ میں موجودہ سیاسی ماحول مخالف سمت میں جا رہا ہے۔

نیورلا نے کہا، ''میں جانتی ہوں کہ دائیں بازو کے پاپولسٹ زندگی کے یہ نئے تصورات نہیں چاہتے۔ یہ ان لوگوں کے لیے مزید مشکل ہے جو تنوع میں رہنا چاہتے ہیں، صرف رومانوی تعلقات میں نہیں، بلکہ تنوع کی دیگر تمام اقسام،'' میں بھی۔

چھوٹے خاندان کا نظریہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کے لیے بہت مفید ہے، کیوں کہ یہیں سے زیادہ تر بلا معاوضہ نگہداشت کا کام ہوتا ہے، جو بیشتر خواتین انجام دیتی ہیں۔ یہ واقعی ایک فعال معاشرے اور (مارکیٹ اکانومی) کی بنیاد ہے۔

نیورلا کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے موجودہ تجاویز بہت کم امید افزا ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میں واقعی اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کہ ایک ساتھ رہنے کی نئی شکلوں کا اتنا زیادہ خوف کیوں ہے۔ میں واقعی امید کرتی ہوں کہ لوگوں کو یہ احساس ہو گا کہ ان سے کچھ بھی نہیں لیا جا رہا ہے، بلکہ حقیقت میں انہیں تحفے میں کچھ دیا جا رہا ہے۔''

ص ز / ج ا (ہیلن وائٹ)