1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتجرمنی

جرمن حکومت کا لاکھوں پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے مددکا وعدہ

11 اکتوبر 2022

جرمنی میں یوکرین، شام اور افغانستان میں جنگ سے فرار ہوکر آنے والے پناہ گزینوں کی وجہ سے رہائش کے مسائل پید ا ہو گئے ہیں۔ جرمن وزیر داخلہ کے مطابق یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں سے مزید پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/4I32J
Deutschland | Ankunft ukrainischer Flüchtlinge in Berlin
تصویر: Hannibal Hanschke/Getty Images

جرمن حکومت نے اس سال اپنے ہاں آنے والے گیارہ لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنے کے لیے کوشاں شہروں اور قصبوں کو مزید مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان تارکین وطن میں  زیادہ تر جنگ زدہ یوکرین، شام اور افغانستان جیسے دوسرے ممالک سے بھی ہیں۔ ریاستی اور مقامی حکام سے ملاقات کے بعد وزیر داخلہ نینسی فیئزر نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے اس سال کے اوائل میں ہزاروں پناہ گزینوں کے لیے پہلے ہی وفاقی املاک مختص کردی ہیں ، لیکن وہ موجودہ رہائشی بحران کو کم کرنے کے لیے تقریباﹰ چار ہزار پناہ گزینوں کو فوری طور پر اضافی املاک فراہم کرے گی۔ فیئزر نے مالی امداد کا بھی وعدہ کیا، لیکن اس بارے میں کوئی کوئی ٹھوس اعداد و شمار مہیا نہیں کیے۔

یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ

Berlin PK Innenministerin Faeser zur Flüchtlingslage 2022
جرمن وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے یوکرین سے مزید پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہےتصویر: Wolfgang Kumm/dpa/picture alliance

کئی جرمن شہروں نے حال ہی میں خیمے لگانا شروع کر دیے ہیں اور کنونشن سینٹرز کو عارضی رہائش گاہوں  میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ تارکین وطن کے باضابطہ مراکز میں رش بہت بڑھ چکا ہے۔ فیئزر نے برلن میں نامہ نگاروں کو بتایا،''ہمارے ہاں ایک کشیدہ صورتحال ہے۔ اور میں اس میں کمی لا کر پیش نہیں کرنا چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ آئندہ موسم سرما کے پیش نظر  پناہ گزینوں کے لیے ہماری امدادکس طرح بہترین طریقے سے مربوط کی جا سکتی ہے۔‘‘

جرمنی نے یوکرینی مہاجرین کے ساتھ بہتر سلوک کیا، جرمن وزیر

روس کی جانب سے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے جرمنی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباﹰ ایک تہائی بچے اور نوعمر ہیں جبکہ 70 فیصد سے زیادہ بالغ خواتین ہیں۔ جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے، بچوں کے لیے ڈے کیئر مراکز اور اسکولوں کی فراہمی اور انہیں سماجی امداد کی فراہمی اور ان کی  اچھی دیکھ بھال کرنے کے لیے یہ ا انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ایک بڑی کوشش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی یوکرین سے مزید پناہ گزینوں کی توقع کر رہا ہے کیونکہ روس نے یوکرین اور وہاں کے لوگوں پر اپنے وحشیانہ حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ ایسے میں وہاں پر لوگ موسم سرما کی ٹھنڈ کے مہینوں کے دوران زندہ رہنے کے لیے اور بھی زیادہ جدوجہد کر رہے ہوں گے۔ اگرچہ وزیر داخلہ نے اس بات پر زور دیا کہ جرمنی رہائش کی مشکل صورتحال کے باوجود مزید یوکرینی باشندوں کا خیرمقدم کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم انہوں نے دوسرے ممالک سے پناہ کے متلاشی افراد کے بارے میں نمایاں طور پر مختلف لہجہ اپنایا ، خاص طور پر وہ جو نام نہاد بلقان کے راستے سے جرمنی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Berlin Hauptbahnhof Ankunft Ukraine-Flüchtlinge
فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد ہی بڑی تعداد میں یوکرینی شہریوں نے جرمنی کا رخ کر لیا تھاتصویر: Michael Kuenne/PRESSCOV/Zuma/picture alliance

 فیئزر نے کہا، ''حالیہ مہینوں میں پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ غیر مجاز اندراجات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف جرمنی میں، بلکہ مجموعی طور پر یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے ساتھ، فی الحال دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھی واضح طور پر ایک حد کو یقینی بنانا ہوگا۔‘‘

جرمنی آنے والے یوکرینی مہاجرین کی حد مقرر نہیں کی جائے گی، جرمن وزیر

مہاجرت اور پناہ گزینوں کے وفاقی دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق 2022ء میں ستمبر کے آخر تک ایک لاکھ پینتیس ہزار افراد نے جرمنی میں سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں، اور  یہ  گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباﹰ ایک تہائی زیادہ ہیں۔ تاہم یہ اب بھی 2015-16 کے مقابلے میں بہت کم تعداد ہے، جب شام، عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے 10 لاکھ سے زائد تارکین وطن نے جرمنی میں پناہ کے لئے درخواست دی تھی۔

سن 2022ء میں پناہ کی درخواستوں کے اعداد و شمار پناہ گزینوں کی کل تعداد سے بہت کم ہیں کیونکہ یوکرینی شہری بغیر ویزے کے جرمنی میں داخل ہو سکتے ہیں اور انہیں پناہ کے لیے درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔  دوسرے تارکین وطن کو سرحد پار کرنے سے روکنے کی کوششوں کے ضمن میں جرمن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ جرمنی آسٹریا کے ساتھ اپنے سرحدی جانچ پڑتال میں مزید چھ ماہ کی توسیع کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ جمہوریہ چیک کے ساتھ سرحد پر بھی نگرانی میں اضافہ کرے گا۔

Migranten im Grenzgebiet zwischen Serbien und Kosovo
غیرقانونی تارکین وطن میں مشہور ’’بلقان روٹ‘‘ جرمنی سمیت دیگر یورپی ملکوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہےتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

یہ اقدام آسٹریا اور جمہوریہ چیک کی جانب سے گذشتہ ماہ سلوواکیہ میں عارضی سرحدی کنٹرول متعارف کرائے جانے کے بعد سامنے آیا ہے تاکہ تارکین وطن کو ان ملکوں میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔جرمنی، آسٹریا، چیک ریپبلک اور سلوواکیہ کا تعلق یورپی یونین کے ویزا فری شینجن زون سے ہے، جہاں رکن ممالک کے باشندے عام طور پرپاسپورٹ یا ویزا پیش کیے بغیر سرحدوں کو عبور کر سکتے ہیں۔

 تاہم شینگن ممالک نے ماضی میں مختلف وجوہات کی بنا ء پر عارضی سرحدی کنٹرول کو اپنایا ہے جس میں غیر قانونی نقل مکانی کو روکنا اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا بھی شامل ہے۔ جرمنی نے کچھ غیر یورپی یونین ممالک کے ساتھ ویزہ کے انتظامات پر سربیا کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جو یورپی یونین کا امیدوار ملک ہے لیکن ابھی تک اس کا رکن نہیں ہے۔  مثال کے طور پر بھارت سے پروازوں کے ذریعے سربیا آنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ یورپی یونین کے ملکوں کے برعکس بھارتی شہریوں کو سربیا میں داخلے کے لیے ویزہ کی ضرورت نہیں۔ پھر یہ بھارتی شہری سربیا سے بلقان کے راستے  سے امیر مغربی یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

مہاجرين يورپ پہنچنے کے ليے کون سا راستہ استعمال کر رہے ہيں؟

جرمن وذیر داخلہ نے کہا، '' واضح رہے کہ سربیا کا ویزہ عمل ناقابل قبول ہے۔ ''اس سے بلقان کے راستے پر نقل و حرکت میں بھی مدد ملتی ہے۔ سربیا کو اپنے ویزہ قوانین کو یورپی یونین کے قوانین کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ یہ جرمن حکومت کی واضح توقع ہے۔‘‘

ش ر ⁄ ع ط ( اے پی)

یوکرینی خواتین جرمنی میں نئی زندگی کی امید لیے