1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اسلحہ سازوں کا کاروبار چمکنے کے امکانات

25 مارچ 2022

یورپی یونین کے جلد متعارف کرائے جانے والے ضابطوں میں پائیداری برقرار رکھنے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اہم ہو گی۔ اس تناظر میں یوکرین میں روسی جنگ کی وجہ سے ہتھیار سازوں نے سرمایہ کاروں کو لُبھانا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/492IC
Lithuania Holds 2018 NATO Thunder Storm Military Exercises
تصویر: Getty Images

چند مہینے قبل کی بات ہے کہ یورپی شہریوں کا خیال تھا  کہ اب اس براعظم کی سرزمین پر جنگ نہیں ہو گی لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی۔ رواں برس چوبیس فروری سے یوکرین میں روسی فوجیں داخل ہو گئیں۔

کیا جرمنی امریکی ساخت کے ایف 35 جنگی طیارے خرید رہا ہے؟

ابھی تک کئی شہروں میں جنگ جاری و ساری ہے۔ یہ نیا جنگی سلسلہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے تیس برس بعد شروع ہوا۔ ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ روس کی یوکرینی جنگ امکانی طور پر روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے خیالات  کو بھی تبدیل کر سکتی ہے۔

Bundeswehr Soldat mit Barrett M82A1 bei Kunduz
جرمن فوج کو جدید بنانے کے لیے ایک سو ارب یورو مختص کیے گئے ہیںتصویر: Terry Moore/StockTrek Images/imago images

ہتھیار سازی اور یورپی یونین کی گرین اکانومی

ہتھیار ساز صنعت نے حالیہ برسوں میں ملازمین کی مراعات میں کمی کی تھی کیونکہ سرمایہ کار پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔ اس انڈسٹری کو بھی سرمایہ کاروں کی جانب سے ماحولیاتی یعنی انوائرمنٹل، سماجی یا سوشل اور کارپوریٹ (ESG) معیارات کا سامنا ہے۔

یورپی یونین بھی موجودہ حالات میں ای ایس جی کے معیار کا حامی دکھائی دیتی ہے۔ اس مناسبت سے ضوابط ابھی بنائے جا رہے ہیں اور ان کی منظوری کے بعد ہی ماحول دوست اقتصادی سرگرمیوں کا مناسب انداز میں احاطہ کیا جا سکے گا۔

جرمن سیاستدانوں کے پاس آپشن محدود ہیں، جرمن فوج کے سربراہ

اس وقت دفاعی ہتھیار سازی کے لابی گروپ اور مالیاتی ادارے اس کوشش میں ہیں کہ یورپی یونین کے ای ایس جی ضوابط کا اطلاق کسی طور ہتھیار سازی کی انڈسٹری پر نہ ہو۔ سویڈن کے ایک اہم بینک SEB نے دفاعی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے ایک مخصوص بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Berlin | Sondersitzung des Bundestags zur Ukraine Krise - Olaf Scholz
جرمن چانسلر اولاف شولستصویر: ODD ANDERSEN/AFP/Getty Images

دوسری جانب روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے ہتھیار ساز انڈسٹری کو ایک نئی قوت فراہم کی ہے۔ برلن حکومت یوکرین کی حمایت، روس کے ساتھ کوئی تعلق رکھے بغیر جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس مناسبت سے کییف کو جرمنی کی جانب سے معیاری ہتھیاروں کی ترسیل جاری ہے۔ ملکی پالیسی میں ایک اور بنیادی تبدیلی یہ کی گئی کہ جرمن حکومت نے یوکرین سے ڈیڑھ ہزار ٹینک شکن اور طیارہ شکن میزائل دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

ہتھیار سازوں کی حوصلہ افزائی

یوکرین کے مسلح تنازعے سے یورپی حکومتوں کو بھی یہ خیال آیا کہ انہیں بھی اب اپنی افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی ایک ماہ قبل امریکی دباؤ کے تحت جرمنی نے بھی ملکی فوج کو جدید بنانے کے لیے ایک سو بلین یورو کا خصوصی فنڈ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مالی فوجی مشن ختم نہیں کیا جائے گا، جرمن وزیر دفاع

اس مناسبت سے جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اپنی آزادی اور جمہوریت کے تحفظ اور دفاع کے لیے مزید سرمایہ کاری کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اس اعلان کے بعد جرمن بازارِ حصص میں ہتھیار ساز فیکٹریوں کے شیئرز میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

Deutschland | Soldaten mit Panzerfaust
جرمن چانسلر کے مطابق آزادی اور جمہوریت کے تحفظ اور دفاع کے لیے حکومت مزید سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہےتصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture alliance

تجزیہ کاروں کے مطابق ہتھیار بنانے والے ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ آزاد جمہوریت کی اقدار کو جہاں مضبوط کرتے ہیں وہاں جارحیت کے خلاف ایک قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔

یورپ میں ایک مشترکہ دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز

ہتھیار سازی اور ماحول پسندی کے حوالے سے جرمنی کی کاسل یونیورسٹی کے پروفیسر برائے پائیدار سرمایہ کاری کرسٹیان کلائن کا کہنا ہے کہ ہتھیار بنانے کا عمل کسی بھی صورت میں پائیدار سرمایہ کاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ دوسری جانب ایک اور ادارے مرفی اینڈ اشپٹس کے ڈائریکٹر اینڈریو مرفی کا کہنا ہے کہ پائیدار انڈسٹری نے ہی کئی ممالک کو مطلق العنان حکومتوں سے نجات دلائی تھی۔

کرسٹی پلاڈسن (ع ح/ ع ا)