1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر کی جارحانہ سفارت کاری، نیٹو اتحادی مخمصے کا شکار

28 مئی 2022

رجب طیب ایردوآن کی جانب سے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کی درخواستوں کی مخالفت نے ایک ہلچل مچا دی ہے۔ ایردوان نے یونان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جبکہ شام میں ایک اور فوجی مداخلت ا اعلان بھی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4BzFU
Türkei | Präsident Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Turkish Presidency/AP/picture alliance

 صدر ایردوآن بظاہر یوکرینی جنگ میں ترکی کے بطور ثالث کردار اور نیٹو میں نئے ارکان کی شمولیت پر اپنے ویٹو کے اختیار کو اس فوجی اتحاد میں شامل دیگر ممالک پر  دباؤ  ڈالنےکے ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس دباؤ کا مقصد ان ممالک کو کرد عسکریت پسندوں سمیت ایسے گروہوں کے خلاف ایکشن لینے کے لیے آمادہ کرنا ہے جنھیں ترکی دہشتگرد سمھجتا ہے۔

بین الاقوامی تنازعات پر توجہ مرکوز کر کے ایردوان اپنے مرد آہن ہونے کے تشخص کو مظبوط کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ترکی میں اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

ترکی کیا چاہتا ہے؟

نیٹو اتحاد میں دوسری بڑی فوج کا حامل ترکی چاہتا ہے کہ سویڈن اور کسی حد تک فن لینڈ ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں جو انقرہ حکومت کے مطابق کردستان وکررز پارٹی یا 'پی کےکے' سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان دونوں ممالک کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کو روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے ترکی کا مطالبہ ہے کہ وہ شامی کردوں کی ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹس یا 'وائی پی جی' کی مبینہ حمایت بھی ختم کردیں۔

Türkei Istanbul | Präsident Erdogan bei virtuellem NATO Treffen
تصویر: Presidential Press Office/REUTERS

 ترکی، یورپ اور امریکہ نے پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اس تنظیم نے ترکی کے خلاف سن 1984 سے مسلح مزاحمت شروع کر رکھی ہے، جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ترکی پی کےکے اور وائی پی جی کو ایک ہی سمجھتا ہے۔

ترکی، سویڈن اور فن لینڈ سے مشتبہ دہشت گردوں کی حوالگی بھی چاہتا ہے۔نیٹو میں شمولیت کے خواہشمند یہ دونوں یورپی ممالک پی کےکے یا دیگر کسی بھی دہشت گرد گروہ کی حمایت کے الزمات کو مسترد کرتے ہیں۔ ترکی کا ایک کلیدی مطالبہ یہ بھی ہے کہ اس کی جانب سےسن 2019 میں  وائی پی جی کے خلاف شام میں کی گئی فوجی مداخلت کے نتیجے میں سویڈن اور فن لینڈ سمیت متعدد یورپی ممالک نے انقرہ کو اسلحے کی فروخت پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، انہیں ختم کر دیا جائے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم پروجیکٹ آن مڈل ایسٹ ڈیموکریسی کی کوآرڈینیٹر مروے طاہر اولو کا کہنا ہے کہ ایردوآن کو یقین ہے کہ نیٹو کو ترکی کی ضرورت ہے اور یہی یقین انہیں سودے بازی کا موقع مہیا کرتا ہے۔ طاہر اولو کے مطابق، '' نیٹوارکان روس کو دکھانا چاہتےہیں کے ان کا اتحاد ہمیشہ سے زیادہ مظبوط ہے، یہاں تک کے ایردوآن کا ترکی بھی اس میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ اسی لیے ایردوآن جانتے ہیں کہ وہ اس کا فائدہ ا‌ٹھا سکتے ہیں۔‘

شام میں نئی فوجی مداخلت کی دھمکی کیوں؟

ترکی سن 2016 سے لیکر اب تک شام میں تین فوجی مداخلتیں کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ امریکہ شامی کردوں کے گروہوں کو داعش کے خلاف جنگ میں ایک کلیدی اتحادی سمجھتا ہے لیکن ترکی کے لیے یہ گروہ دہشت گرد ہیں۔  صدر ایردوآن نے پیر کے روز شام میں ایک نئی فوجی مداخلت کا اعلان کیا ہے تاکہ ترکی جنوب میں شام کے ساتھ سرحد پر 30 کلو میٹر تک ایک محفوظ علاقہ یا سیف زون قائم کر سکے۔ اس اقدام کا مقصد وائی پی جی کو ترکی کی سرحدوں سے دور دھکیلنا ہے۔ اس فوجی کارروائی کے لیے وقت کا تعین ترکی کے آئندہ انتخابات میں قوم پرست ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی،  یوکرینی جنگ میں اپنے ثالث کے کردار کو استعمال کرتے ہوئے نیٹو سے اپنے م‍طالبات منوانا چاہتا ہے۔

آسٹرین انسٹی ٹیوٹ فار یورپین اینڈ سکیورٹی پالیسی کی ایک سینئیر فیلو مشیل ٹینخم کا کہنا ہے کہ ترکی کا خیال ہے کہ نیٹو اتحادی پی کے کے اور اس کی ذیلی شاخوں  کی جانب سے ترکی کو لاحق خطرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔

دوسری جانب ترکی کے بیک وقت ماسکو اور کییف سے گہرے تعلقات ہیں۔ مشیل ٹینخم کے مطابق، '' یوکرین جنگ میں ترکی کی حثیت اسے کسی حد تک یہ سہولت مہیا کرتی ہے کہ وہ انقرہ کو لاحق خدشات کے حل کی کوشش کر سکے۔‘‘

تاہم مروے طاہر اولو سمجھتی ہیں کہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ شام میں ایک اور فوجی مداخلت ترکی کے لیے 'خیر سگالی‘ کو ختم کر سکتی ہے۔ طاہر اولو کے مطابق، ‘‘ ایردوآن نے یقیناﹰ نیٹوارکان کے اس خیال کو مزید تقویت پہنچائی ہے کہ ان کی صدارت میں ترکی نیٹو کے لیے مسائل پیدا کرنیوالا ایک اتحادی ہے۔‘‘

یونان کا کردار

نیٹو کے ارکان ترکی اور یونان متعدد معاملات پر اختلافات کے ساتھ دو علاقائی حریف ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مشرقی بحیرہ روم میں سمندری حدود کے تنازعے سے لے کر لسانی طور پر منقسم قبرص کے مستقبل کے معاملات پرشدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سن 2020 میں سمندر میں توانائی کی تلاش کے حقوق پر بھی کشیدگی بھڑک اٹھی تھی۔ صدر ایردوآن یونانی وزیر اعظم کریا کوس مٹسوٹاکس کے حالیہ دورہ واشنگٹن میں دیے گئے ایک بیان پر بھی ناراض ہوگئے تھے۔ یونانی وزیر اعظم نے امریکی ایوان نمائندگان سے اپنے خطاب میں تجویز دی تھی کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ ترکی کو ایف-سولہ جنگی طیارے فراہم نہ کرے تاکہ نیٹو کے جنوبی حصے میں 'عدم استحکام کے ایک نئے ذریعے‘ سے بچا جا سکے۔ اس کے ردعمل میں صدر ایردوآن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب مٹسوٹاکس سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کریں گے اور ساتھ ہی انہوں نے دونوں حکومتوں کے درمیان اسٹریٹجک کونسل کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

ترک صدر نے سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے یونان کے ساتھ اپنے ملک کی مخاصمت کا حوالہ بھی دیا تھا۔

ایردوآن کا کہنا تھا کہ ان کے ملک  نے سن 1980 میں یونان کی نیٹو کی فوجی شاخ میں دوبارہ شمولیت کی حمایت کر کے غلطی کی تھی اور اب وہ  سویڈن اور فن لینڈ کے معاملے میں یہ غلطی نہ دہرانے کے لیے پر عزم ہیں۔

دوسری جانب اس ہفتے عالمی اقتصادی فورم کے موقعے پر بات چیت کرتے  ہوئے مٹسوٹاکس کا کہنا تھاکہ اگر ترکی نیٹو کے ساتھ بات چیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے تو یہ ایک غلطی ہو گی۔

انتخابی سیاست کا عمل دخل

ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اگلے برس جون میں ہوگا۔ شام میں وائی پی جی کے خلاف ترکی کی فوجی مہم جوئی نے گزشتہ انتخابات جیتنے میں صدر ایردوآن کی مدد کی تھی۔ایردوان شاید دوبارہ قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کی امید میں ہیں اور  وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ترک معیشت تنزلی کا شکار  ہے اور افراط زر کی شرح 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ترکی میں افراط زر کی اونچی شرح، خاتمہ جلد دکھائی نہیں دیتا

ترک صدر پہلے بھی یونان اور دوسرے مغربی ممالک کی مخالفت کرکے اپنی مقبولیت میں اضافہ دیکھ چکے ہیں۔ پروجیکٹ آن مڈل ایسٹ ڈیموکریسی کی کوآرڈینیٹر مروے طاہر اولوکے مطابق، '' میرے خیال میں ان (ایردوآن) کا اس وقت منصوبہ یہی ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کو دکھا سکیں کہ وہ امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کو جھکا سکتے ہیں۔ اور انہیں اس طرح کے طرز عمل کا اختیار بھی حاصل ہے کیونکہ یہ اتحادی یوکرین میں جنگ کی شروعات سے ہی ایردوآن کو خوش کرتے آئے ہیں ‘‘

ش خ / ب ج ( اے پی)