1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستتائیوان

تائیوان پر امریکی اور چینی کشیدگی، صورتحال کتنی سنجیدہ؟

30 دسمبر 2022

چین اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کتنی سنگین ہے اور کیا ایک اور جنگی تنازعہ دستک دے رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/4La5K
Taiwan | Soldaten bei einer Übung in Tainan
تصویر: Daniel Ceng Shou-Yi/ZUMA/picture alliance

چین اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے اور اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ وہ جلد یا بہ دیر اسے بیجنگ حکومت کے زیرانتظام لے آئے گا، اس کے لیے چاہے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے، جب کہ دوسری جانب امریکہ کہہ چکا ہے کہ تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں وہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ دو ہزار بائیس کا اختتام اس سہ جہتی تنازعے میں شدید کشیدگی کے موقع پر ہو رہا ہے۔

جنوبی بحیرہ چین میں چینی جیٹ طیارہ امریکی طیارے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا

امریکی تاریخ کا ریکارڈ دفاعی بجٹ منظور

تائیوانی صدر تسائی انگ وین نے اپنے رواں برس کے اختتام پر قوم کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا، ''ہم جنگ سے صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں، جب ہم جنگ کے لیے تیار ہوں۔‘‘

تسائی نے کہا، ''تائیوان کو اپنے دفاع کی صلاحیتیں بہتر بنانا ہیں‘‘۔ انہوں نے سن دو ہزار چوبیس سےلازمی فوجی سروس کی مدت چار ماہ سے بڑھا کر ایک برس کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ کوئی نہیں چاہتا، ''مگر میرے ہم وطنو! امن آسمان سے نہیں اترتا۔‘‘

چین کی جانب سے خطرہ

چین میں سن انیس سو انچاس میں خانہ جنگی کے بعد سے تائیوان کا مسئلہ جاری ہے۔ قوم پرست شکست کھانے کے بعد فرار ہو کر اس جزیرے پر جمع ہو گئے تھے، جب کہ فاتح کمیونسٹوں نے بیجنگ میں حکومت سنبھال لی تھی۔ تاہم جنگ کا امکان، جو کئی دہائیوں سے ہمیشہ موجود رہا ہے، اب امکان سے کہیں بڑھ کر دکھائی دے رہا ہے۔

اگست میں چین نے پچھلی کئی دہائیوں کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کیں، جن میں تائیوان کی مکمل ناکہ بندی حتیٰ کہی اس پر حملے تک کی ریہرسل کی گئی۔

تائیوان کے وزیرخارجہ جوزف وو کے مطابق، ''انہوں نے تائیوانی پانیوں کے قریب میزائل داغے۔ انہوں نے بڑی سطح کی فضائی اور بحری مشقیں کیں۔ انہوں نے سائبر حملے بھی کیے۔ سب کو جوڑٹا جائے، تویہ سب کچھ وہی ہے، جو وہتائیوان پر حملہ کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

وو نے یہ بات ڈی ڈبلیو کی تائیوان سے متعلق ایک نئی ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں گفتگو میں کہی۔

ہمیں تائیوان کو ساتھ ملانا ہے، چین

چین تائیوان کے معاملے میں واضح موقف کا حامل ہے۔ تسنگووا یونیورسٹی سے وابستہ اور سابقہ چینی فوجی کرنل زہو بو کے مطابق، ''چین میں ہم یہی سمجھتے ہیں کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور ہمیں اسے اپنے ساتھ جوڑنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ کس ذریعے سے۔ کیا یہ پرامن طریقے سے ممکن ہے یا ہمیںطاقت کا استعمال کرنا ہو گا؟‘‘

اکتوبر میں کمیونیسٹ پارٹی کی کانگریس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ کہا تھا، ''ہم اس کے لیے ایک پرامن اتحاد کے خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

مگر پرامن اتحاد فقط ایک خام خیالی ہے۔ تائیوان کی چینگ چی یونیورسٹی کے ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق تائیوان میں فقط چھ اعشاریہ چار فیصد افراد چین کے ساتھ فوری یا مستقبل میں کسی وقت اتحاد کے متمنی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شی جن پنگ تائیوان کا حصول چاہتے ہیں، تو اس کا واحد راستہ طاقت کا استعمال بچتا ہے۔

یوکرین ایک مثال

روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ جنگ کے خدشے کے حقیقت میں بدل جانے کی ایک واضح مثال ہے۔ مگر اس جنگ میں یوکرین کی مزاحمت نے روس جیسی طاقت ور قوت کو مشکل میں ڈال دیا۔ ابتدا میں یہی کہا جا رہا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کا مطلب یوکرین پر قبضے ہو گا، تاہم نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت اورنیٹو ممالک کی زبردست امداد نے اس جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔

تائیوانی وزیرخارجہ جوزیف وو کے مطابق، ''یہ جنگ تائیوانی عوام کے لیے ایک مثال تھی۔ ہم عالمی برادری پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ملک کے دفاع کے لیے اتنی ہی بہادری سے لڑ سکتے ہیں۔‘‘

اس بابت بین الاقوامی پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے، تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں تائیوانی مزاحمت فقط اس صورت میں ممکن ہے، جب بین الاقوامی برادری تائیوان کا ساتھ دے، خصوصاﹰ امریکہ۔

چین کی تائیوان کے قریب فوجی مشقیں، تائیوانی ماہی گیر خوفزدہ

امریکہ اور چین آمنے سامنے

امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک دفاعی قانونی بل پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت تائیوان کو دس ارب ڈالر کی عسکری معاونت فراہم کی جائے گی۔ رواں برس متعدد مواقع پر صدر بائیڈن تائیوان کے حوالے سے سخت موقف اپناتے دکھائی دیے۔ انہوں نے یہ تک کہا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ ایسی صورت میں مداخلت کرے گا۔

چین کے معاملے میں  ریپبلکن اور ڈیموکریٹس سبھی متفق ہیں اور اسے اقتصادی، تکنیکی، سفارتی اور عسکری خطرہ سمجھتے ہیں۔ تائیوان کے لیے عسکری معاونت میں اضافے کے بل کی منظوری اسی اتفاق رائے کا ایک اظہار ہے۔ رواں برس امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائی پے کا دورہ بھی کیا تھا جب کہ امریکہ کی جانب سے چین پر سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندی بھی تائیوان کے لیے واضح ہوتی امریکی مدد کا عکاس ہے۔

رچرڈ والکر (ع ت، ا ا )