1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بیجنگ بکنی‘ کیا ہے؟

5 جون 2023

بیجنگ بکنی ایک اصطلاح ہے جو چین میں ان مردوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو موسمِ گرما میں خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے عوامی مقامات پر اپنی قمیضوں کو اوپر کی طرف لپیٹ کر پیٹ ننگا کر لیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4SC5G
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

بکنی سے کون واقف نہیں۔ کچھ کے لیے یہ تیراکی کا ایک لباس ہے تو کچھ کے لیے رومان انگیز۔ بہت سے قدامت پسند معاشروں میں عورتیں بکنی پہن کر سرعام نہیں گھومتیں، جیسے کہ مغربی ممالک میں۔ بکنی کپڑے کی بنی دو ایسی مختصر مصنوعات کو مشترکہ طور پر کہتے ہیں، جن میں سے ایک سینے پر اور دوسری بطور سلِپ یا انڈوویئر پہنی جاتی ہے۔

بکنی ایک فرانسیسی انجینئیر لوئی ریارڈ نے 1946 میں ایجاد کی تھی۔ لوئی کی والدہ زیر جامہ ملبوسات کا کاروبار کرتی تھیں۔ لوئس نے 1940 میں ان کے کاروبار کو سنبھالا اور یوں وہ کپڑوں کے ڈیزائنر بن گئے۔ لوئی نے مشاہدہ کیا کہ خواتین ساحلِ سمندر پر اپنے لباس کو اوپر کی طرف لپیٹتی تھیں تاکہ سورج کی کرنیں ان کے جسم کو ایک خوبصورت بھورا رنگ دے سکیں۔ 

انہوں نے خواتین کی ضرورت کے پیشِ نظر ان کے لیے ایک تیراکی کا لباس بنانے کا سوچا۔ ان کا ڈیزائن شدہ تیراکی کا لباس 30 مربع انچ کپڑے سے بنی چار مثلثوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے اسے دنیا کا مختصر ترین تیراکی کا لباس قرار دیا۔ 

جب لوئی نے اپنی ایجاد شدہ بکنی کی تشہیر کے لیے ماڈلز سے رابطہ کیا تو کسی نے بھی اس بکنی کو پہننے کی حامی نہیں بھری۔ پھر انہوں نے ایک انیس سالہ رقاصہ کو بکنی پہننے پر رضامند کیا۔ 

انہوں نے 5 جولائی 1946 کو پیرس کے ایک مشہور عوامی سوئمنگ پول پر بکنی پہنے اپنی ماڈل کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی۔ ان کی بکنی جلد ہی عوام میں مشہور ہو گئی اور یوں بکنی وجود میں آئی۔

خیر اس بلاگ میں ہم لوئی کی بکنی کی نہیں بلکہ بیجنگ کے مردوں کی بکنی کی بات کر رہے ہیں جو خالصتاً انہی کی ایجاد ہے۔ بیجنگ بکنی کی ابتدا کب ہوئی، اس بابت کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی شروعات 1990 کی دہائی میں ہوئی۔

بیجنگ بکنی ایک اصطلاح ہے جو چین میں ان مردوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو موسمِ گرما میں اپنے جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے عوامی مقامات پر اپنی قمیض کو اوپر کی طرف لپیٹ کر اپنا پیٹ ننگا کر لیتے ہیں۔ کچھ مرد تو اپنی قمیض ہی اتار دیتے ہیں۔ 

پاکستان میں یہ ایک عام رواج ہے۔ مرد گھروں میں بنیان یا اس کے بغیر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی باہر بھی نکل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسے مردانگی سمجھا جاتا ہے۔ شاید ہی اس انسان کو یا اس کے اردگرد موجود لوگوں کو اس کا بنیان یا اس کے بھی بغیر ہونا برا لگتا ہو لیکن چینی معاشرہ ہمارے معاشرے سے بہت الگ ہے۔ 

چینی طبعیتاً شرمیلے واقع ہوئے ہیں۔ وہ اپنی ثقافت اور دنیا میں اپنے تصور کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ ان کے نزدیک مردوں کا عوامی جگہوں پر اپنا پیٹ ننگا کرنا یا قمیض ہی اتار دینا ایک شرمناک عمل اور غیر مہذبانہ عمل ہے۔

اس کے باوجود بیجنگ بکنی نہ صرف بیجنگ بلکہ چین کے دیگر شہروں بشمول شنگھائی، گوانگ زو اور شینزین میں بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔

چینی مرد سمجھتے ہیں کہ یہ سخت گرمی میں خود کو کچھ ٹھنڈک پہنچانے کا ذریعہ ہے تو کچھ اسے اپنی مردانگی کی علامت سمجھتے ہیں اور کچھ اسے ماحول دوست عمل سمجھتے ہیں۔ وہ اے سی چلانے کی بجائے اپنی قمیض اتار کر ٹھنڈک حاصل کر رہے ہیں، یہ ان کے لیے ماحول دوست قدم ہے۔

چینی حکومت کی طرف سے بیجنگ بکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کے لیے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔ 2019 میں جنان شہر میں اس رجحان کی کم کرنے کے لیے ایک مہم چلائی گئی تھی۔ 

اس مہم میں پبلک سروس کے اعلانات اور ان لوگوں کے لیے جرمانے شامل تھے جو بغیر قمیض کے عوامی جگہوں پر دیکھے گئے تھے۔ ایک صاحب تو بغیر قمیض پہنے ایک شاپنگ مال میں خریداری کرتے ہوئے پکڑے گئے۔

مئی 2019 میں چین کے شمالی شہر تیانجن میں پولیس نے بیجنگ بکنی پہنے مردوں کو وارننگ دینی شروع کر دی تھی۔ جو لوگ اس وارننگ کے بعد بھی باز نہیں آتے تھے انہیں جرمانہ کیا گیا تھا۔ 

2002 میں بیجنگ کے ایک آن لائن میگزین نے بیجنگ بکنی پہننے والے مردوں کو شرمندہ کرنے کے لیے ان کی تصاویر شائع کی تھیں۔ 

چین کے صوبہ ہیبی میں مردوں میں اس رجحان کو روکنے کے لیے ایک مختصر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں ایک لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے والد سے ملوانے ایک عوامی پارک میں لاتی ہے۔ اس کے والد وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ قمیض اتارے تاش کھیل رہے ہوتے ہیں۔ جب لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کا اپنے والد سے تعارف کرواتی ہے تو وہ اسے ایک طرف لے جا کر پوچھتا ہے کہ کیا یہ تمہارے والد ہیں؟ یہ کتنے غیر مہذب ہیں۔ انہوں نے اپنی قمیض اتار رکھی ہے۔ اس فلم میں اس طرح کے چند اور واقعات دکھائے گئے ہیں۔ لڑکی کے والد مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے عوامی مقامات پر اپنی قمیض اتارنا چھوڑ دیتے ہیں۔

چینی حکومت ایسی سبق آموز مختصر فلموں اور آگاہی پیغامات کے ذریعے چینی مردوں کو گرمیوں میں عوامی جگہوں پر اپنا پیٹ ننگا کرنے سے روک رہی ہے لیکن پھر بھی بیجنگ سمیت چین کے ان شہروں میں جہاں سخت گرمی پڑتی ہے، بہت سے مرد اپنی قمیض اوپر کی طرف لپیٹے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 

ایسے لگتا ہے کہ جس طرح لوئی کی 'بکنی‘ دنیا نے اپنا لی ہے اسی طرح چین نے بھی کہیں نہ کہیں بیجنگ بکنی کو اپنی ثقافت کا حصہ بنا لیا ہے۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔