1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کینسر کے کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں؟

7 مئی 2024

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں کینسر میں مبتلا افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/4fZyl
بھارت میں ہر سال کینسر کے تقریباً ایک ملین نئے کیسز سامنے آتے ہیں
بھارت میں ہر سال کینسر کے تقریباً ایک ملین نئے کیسز سامنے آتے ہیںتصویر: Rui Vieira/empics/picture alliance

 

بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی پروفیشنل پرفل ریڈی کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے اور دو سال قبل اس کی تشخیص ہونے کے بعد سے وہ اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیموتھیراپی اور ریڈییشن سمیت دیگر خصوصی علاج کروا رہے ہیں۔

انہیں قے، سر درد اور السر جیسے کئی سائیڈ افیکٹس کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ نہیں معلوم کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو سکیں گے بھی یا نہیں، حالانکہ ڈاکٹر ان کے صحت یاب ہونے کی امید کررہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کی خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی پیشگی تشخیص میں اے آئی مددگار

انسانی جنسی عمل سے کینسر کا باعث بننے والا وائرس، پاپیلوما

ریڈی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ڈاکٹر کینسر کے خلیوں کی نشوونما اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوائیں دے رہے ہیں۔ اگر اس سے فائدہ نہیں ہوتا ہے تو مجھے اپنا ایک پھیپھڑا پوری طرح نکلوانے کے لیے لوبیکٹومی کرانا پڑ سکتا ہے۔‘‘

پڑوسی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلورو میں بارہ سالہ دپتی، ولیمز ٹیومر کا علاج کروارہی ہیں۔ یہ کینسر کی ایک نایاب قسم ہے جو گردوں میں پیدا ہوتی ہے اور بنیادی طورپر بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ دپتی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر چارو شرما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی وہ ریڈی ایشن تھیراپی سے گزر رہی ہیں، لیکن اس سے جلد کو نقصان اور بالوں کے گرنے جیسے مضر اثرات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں بڑھتا ہوا سرطان، ماہرین تشویش میں مبتلا

یہ کوئی اکا دکا کیس نہیں ہے بلکہ بھارت میں لوگوں میں بڑھتی ہوئی، بالخصوص بچوں میں کینسر کی تشخیص ہو رہی ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے کینسر پھیلنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔

کینسر کے سالانہ کیسز کی تعداد 2025ء میں بڑھ کر 1.57ملین ہو جائے گی، جو سن 2020 میں تقریباً 1.4 ملین تھی
کینسر کے سالانہ کیسز کی تعداد 2025ء میں بڑھ کر 1.57ملین ہو جائے گی، جو سن 2020 میں تقریباً 1.4 ملین تھیتصویر: Subrata Goswami/DW

کینسر کا عالمی دارالحکومت؟

بھارت کی ملٹی نیشنل ہیلتھ کیئر گروپ اپولو ہاسپیٹلز نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں اس جنوب ایشیائی ملک کو

''کینسر کی عالمی راجدھانی‘‘ یعنی دارالحکومت قرار دیا تھا۔ اس تحقیق میں پورے بھارت میں مجموعی صحت کی گرتی ہوئی تشویش ناک تصویر سامنے آئی، جس میں کینسر اور دیگر غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے کیسز کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت تین میں سے ایک بھارتی ذیابیطس سے متاثر ہے، ہر تین میں سے دو پری ہائی بلڈ پریشر اور دس میں سے ایک ڈپریشن کا مریض ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کینسر، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں اور دماغی صحت کے امراض جیسے دائمی حالات اب اس حد تک پھیل چکے ہیں کہ انہیں ''سنگین‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ کینسر کے سالانہ کیسز کی تعداد 2025ء میں بڑھ کر 1.57ملین ہو جائے گی، جو سن 2020 میں تقریباً 1.4 ملین تھی۔ چھاتی، سروائیکل اور رحم کے کینسر کے کیسز سب سے زیادہ خواتین میں سامنے آ رہے ہیں، جب کہ پھیپھڑوں، منہ او رپروسٹیٹ کے کینسر سے مرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

غیر سرکاری ادارے پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے سابق صدر سری ناتھ ریڈی کے مطابق، ''کینسر کے کیسز اور اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اگلی دو دہائیوں میں اس میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات میں جو عوامل معاون ہیں ان میں عمر میں اضافہ، الٹرا پروسیسڈ فوڈز، غیر صحت بخش غذائیں، جن سے سوزش میں اضافہ ہوتا ہے،کارسینوجینس سے آلودہ فضا اور موسمیاتی تبدیلی نیز الٹرا وائلٹ تابکاری میں اضافہ شامل ہیں۔‘‘

چھاتی، سروائیکل اور رحم کے کینسر کے کیسز سب سے زیادہ خواتین میں سامنے آ رہے ہیں
چھاتی، سروائیکل اور رحم کے کینسر کے کیسز سب سے زیادہ خواتین میں سامنے آ رہے ہیںتصویر: APTN

بچے تیزی سے کینسر سے متاثر ہو رہے ہیں

اپولو ہاسپیٹلز کی رپورٹ میں تفصیل سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کینسر کے بعض اقسام بھارت میں لوگوں کو دیگر ممالک کے افراد کے مقابلے کس طرح ابتدائی عمر میں متاثر کر رہے ہیں۔ پھیپھڑوں کے کینسر سے متاثرین کی اوسط عمر بھارت میں 59 ہے لیکن چین میں 68، امریکہ میں 70اور برطانیہ میں 75سال ہے۔

بھارت میں ہر سال کینسر کے تقریباً ایک ملین نئے کیسز سامنے آتے ہیں، جن میں چار فیصد بچوں میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور دیگر ماہرین صحت نے پیڈیاٹرک آنکولوجی (بچوں میں کینسر کے علاج) کی سہولیات کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ممبئی کے ایم آر آر چلڈرن ہاسپیٹل میں پیڈیاٹرک آنکولوجسٹ اور سینیئر کنسلٹنٹ روچیرا مشرا کا کہنا تھا، ''زیادہ ترپرائیوٹ ہسپتالوں نے بچوں کے آنکولوجسٹ کو تربیت دی ہے، لیکن میڈیکل کالجوں یا سرکاری ہسپتالوں میں ایسا نہیں ہوسکا۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ صرف 41 فیصد سرکاری ہسپتالوں میں ہی پیڈیاٹرک آنکولوجی کے مخصوص شعبے ہیں۔

روچیرا شرما کا کہنا تھا کہ تشخیص، دیکھ بھال اور ادویات تک رسائی اور فالو اپ بہت مشکل ہوتا ہے اور والدین یا سرپرستوں کو علاج کو ترک کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اس کے بھاری اخراجات کے متحمل نہیں ہو پاتے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت کی جانچ کی کم شرح کینسر کے خلاف جنگ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت کی جانچ کی کم شرح کینسر کے خلاف جنگ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہےتصویر: David Davies/empics/picture alliance

باقاعدہ اسکریننگ کی ضرورت

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت کی جانچ کی کم شرح کینسر کے خلاف جنگ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا۔

فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں میڈیکل آنکولوجی کے سینیئر ڈائریکٹر نتیش روہتگی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کینسرکے کیسز بڑھ رہے ہیں اور ہر ایک کو ترجیحی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، ''حکومت کو پہلے اقدام کے طورپر اسکریننگ کی ترغیب دینی چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مالی تحفظ فراہم کرنے اور کینسر کے لیے اسکریننگ اور علاج کی خدمات کو بڑھانے کے لیے پالیسیوں کی بھی ضرورت ہے۔

بھارت میں زبان، چھاتی اور سروائیکل کینسر کے لیے اسکریننگ کا سرکاری پروگرام موجود ہے۔ لیکن ایک فیصد سے بھی کم خواتین کی اسکریننگ ہوتی ہے حالانکہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی سفارش کے مطابق کم از کم 70فیصد خواتین کی اسکریننگ ہونی چاہیے۔

میکس سپراسپیشیلیٹی ہاسپسٹل کے ڈائریکٹر آف کینسر کیئر اسیت اروڑا کا کہنا تھا، ''میں اسے وبا تو نہیں کہہ سکتا لیکن ہم سن 2020 کے مقابلے سن 2040 تک کینسر کے کیسز کو دوگنا دیکھیں گے۔ ان میں بہت سے افراد کو انفرادی، سماجی اور حکومتی سطح پر روکا جاسکتا ہے، لیکن اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو ہمیں بحیثیت معاشرہ بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘

ج ا/ ر ب    (مرلی کرشنن، دہلی)