1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں داخلی سیاسی تقسیم کے پھیلتے اثرات برطانیہ میں بھی

مرلی کرشنن، نئی دہلی
4 اکتوبر 2022

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان حالیہ تشدد نے برطانیہ کے شہر لیسٹر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس برطانوی شہر میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارتی سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کو ہوا دی گئی۔

https://p.dw.com/p/4HjJW
England London | Protest gegen Modi: Gewalt zwischen Hindus und Moslems
تصویر: Vuk Valcic/Zuma/picture alliance

اگست کے آخر میں انگلینڈ میں ایسٹرن مڈلینڈز کے علاقے لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیسڑ نے ہمیشہ اپنے برطانیہ کے سب سے زیادہ متنوع شہروں میں سے ایک ہونے پر فخر کیا ہے اور وہاں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے افراد کا کامیاب سماجی انضمام کئی دہائیوں سے مثالی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیسٹر میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن کے درمیان اس تشدد نے یہ بات واضح کر دی کہ کس طرح سوشل میڈیا اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بھارت کی داخلی اور سماجی تقسیم پیدا کرنے والی سیاست اور سیاسی تناؤ کو بیرون ملک برآمد کیا گیا۔

بھارت: ہندو قوم پرستی کی بھینٹ چڑھتا قدیم تہذیبی و ثقافتی ورثہ

Cricket I Indien vs Pakistan
لیسٹر میں کشیدگی کا آغاز 28 اگست کو دبئی میں ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف بھارت کی فتح کے بعد ہوا تھاتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

لیسٹر میں کشیدگی کا آغاز 28 اگست کو دبئی میں منعقدہ کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف بھارت کی فتح کے بعد ہوا تھا۔ لیسٹر شہر میں منائے جانے والے فتح کے جشن میں اس وقت بد نظمی شروع ہوئی، جب ہندو اور مسلم دونوں  مقامی برادریوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے  اور ان کا آپس میں تصادم شروع ہو گیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔

لیسٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی

لیسٹر کی جنوبی ایشیائی ہندو اور مسلم برادریوں کے مابین کشیدگی اگلی صبح تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ کشیدگی دراصل کئی ہفتوں تک جاری رہی۔  سترہ ستمبر کی رات اس کشیدگی میں اضافہ  اس وقت اضافہ ہو گیا جب پولیس نے یہ اعلان کیا کہ اس نے 'غیر منصوبہ بند احتجاج‘ کرنے والے نوجوانوں کے بے قابو گروہوں کا سامنا کیا جو جلد ہی تشدد میں تبدیل ہو گیا۔ اس دوران لیسٹر میں قائم  ایک ہندو مندر نے اطلاع دی  کہ ہجوم کے کچھ حصوں نے مندر پر لگا جھنڈا اتار کر اسے مبینہ طور پر آگ بھی لگا دی تھی۔ یہ واقعہ ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا، جن کے مطابق  ہندوؤں کے گروہ گالی گلوچ کرتے مسلمانوں کے محلے سے ہوتے ہوئے ایک مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے۔

UK, Leicester | Polizisten im Einsatz
لیسٹر پولیس نے تصادم اور توڑ پھوٹ میں ملوث ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیاتصویر: ZUMA/imago images

لیسٹر کی سڑکوں پر بدامنی بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازعات سے مطابقت رکھتی ہے، جو حالیہ برسوں میں مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ نئی دہلی میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی مسلم اقلیت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ بھارتی سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس کی وجہ سے بھی مذہبی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ لیسٹر میں بدامنی کے ساتھ ہی بھارت میں سوشل میڈیا پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان بچوں کو اغوا کرنے کی متعدد بے بنیاد کہانیاں بھی گردش کر رہی تھیں۔ برطانیہ میں واٹس ایپ پر ہندو گروپوں نے افواہیں پھیلائیں کہ لیسٹر کے زیادہ تر ہندو آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کے ہجوم  املاک پر حملے کر رہے تھے۔ لیسٹر کے میئر پیٹر سولسبی نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ انہیں اس سے پہلے کبھی بھی اس سطح کی کشیدگی کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔

بھارتی میڈیا شعلوں کو ہوا دے رہا تھا

لیسٹر میں ہونے والے واقعات کو بھارتی میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا۔ تاہم بھارتی میڈیا تھنک ٹینک فری اسپیچ کولیکیٹو کی شریک بانی گیتا سیشو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ معروف بھارتی میڈیا ادارے بغیر کسی الزام کے اشتعال انگیز خبریں نشر کر رہے تھے، جن کے مطابق مسلمانوں کے نام نہاد 'گینگ‘ ہندوؤں پر حملے کر رہے تھے۔ سیشو نے کہا کہ لیسٹر میں تشدد کو 'جانبدار میڈیا‘ نے رپورٹ کیا، جس میں بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ برطانیہ میں ان ہندوؤں کی حفاظت کے لیے 'کارروائی‘ کرے، جن پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا تھا۔

بھارتی سوشل میڈیا پر لیسٹر میں ہونے والا تشدد داخلی سیاست کے بڑے پیمانے پر منقسم دائرے پر بھی چھایا رہا۔ بی بی سی مانیٹرنگ کی جانب سے ٹوئٹر تجزیے کے آلے برانڈ واچ کا استعمال کرتے ہوئے کی جانے والی ایک تحقیق میں انگریزی زبان میں کی گئی ایسی ہزاروں ٹویٹس کی نشاندہی کی گئی، جن میں لیسٹر کے واقعات کا ذکر بھارت میں ہندو مسلم کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر ٹویٹس سترہ سے اٹھارہ ستمبر تک کے اختتام ہفتہ پر لیسٹر میں کشیدگی کے عروج کے دوران اور اس کے بعد ہی کی گئی تھیں۔

Indien Symbolbild nationalistische Hindus
بھارتی قوم پرست ہندو تنظیم کے ارکان اس مندر کے باہر ریلی میں شریک ہیں، جہاں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہےتصویر: Hindustan Times/imago images

بھارت میں نہ ختم ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کو بھارت کی مسلم اقلیت کی جانب سے ہندو مذہب کی سیاست قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جاتا ہے۔ 1989ء سے مودی کی جماعت بی جے پی کا نعرہ 'ہندوتوا‘ رہا ہے ، جو ہندو مذہب کی 'اقدار‘ کو فروغ  دینے والا ایک سیاسی نظریہ ہے۔ صحافی اور مبصر سدھارتھ بھاٹیہ نے کہا کہ ہندوتوا پر مرکوز بھارتی سیاست تارکین وطن کو بھی متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست ہندوستان میں رائج سیاست کی عکاس ہوتی ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی دھڑے بندی، وہی سوشل میڈیا کی مہمات، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔‘‘

انیس ستمبر کو برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن نے لیسٹر میں تشدد کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا، جس میں صرف مبینہ طور پر 'ہندو مذہب کے احاطے اور علامتوں کی توڑ پھوڑ‘ کا ذکر کیا گیا تھا۔ ایک بھارتی سیاسی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاسی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے کئی سالوں سے دوسرے ممالک میں اسلاموفوبیا اور تشدد کو بھڑکانے کے لیے ایک عالمی نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ کرشنن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اس کے بعد بھارت میں مودی پراپیگنڈا میڈیا کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ، روس اور دیگر جگہوں پر بھی انتہائی دائیں بازو کی نسل پرستانہ آوازوں کے ذریعے اس تشدد کو ہوا بھی دی جاتی رہی۔ یہ سب محض کوئی اتفاق نہیں ہے۔‘‘