1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں اسلامی حکمرانی کی خواہش کی اجازت نہیں، مودی حکومت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
19 جنوری 2023

مودی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ 'کسی بھی ایسی تنظیم کے وجود کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس کا مقصد بھارت میں اسلامی حکمرانی یا نظام قائم کرنا ہو۔'

https://p.dw.com/p/4MPXG
Usbekistan Samarkand | SOC GIpfeltreffen - Narendra Modi
تصویر: Sergei Bobylev/Sputnik/Kremlin Pool Photo/AP/picture alliance

بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے مسلم طلبہ کی تنظیم 'اسٹوڈٹنس اسلامک مومنٹ آف انڈیا' (ایس آئی ایم) پر عائد پابندی میں مسلسل آٹھویں بارتوسیع کرتے ہوئے تنظیم کو ایک ''غیر آئینی انجمن قرار دیا۔''

وزیر اعظم مودی نے پاکستانی ہندوؤں کی بڑی خواہش پوری کردی

مسلم طلبہ تنظیم 'سیمی' پر عائد پابندی کو چیلنج کرنے والے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک جوابی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔

بھارتی صوبے کرناٹک میں ’حلال‘ کے خلاف قانون سازی متوقع

مودی حکومت نے کیا کہا؟

بھارت کی مرکزی حکومت نے تنظیم پر مسلسل عائد پابندی کا دفاع کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ''کوئی بھی ایسی تنظیم جس کا مقصد بھارت میں اسلامی حکمرانی قائم کرنا ہو، اس کے وجود کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔''

بھارت میں 'لب پہ آتی ہے دعا' پڑھنے پر اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا گیا

حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ جو بھی تنظیمیں اس طرح کی کوشش کر رہی ہوں انہیں ''ہمارے سیکولر معاشرے میں برقرار رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔''

'تاریخ کو صحیح اور شاندار انداز میں لکھنے کا وقت آ گیا ہے'، مودی حکومت

مرکزی حکومت نے یہ بھی الزام لگایا کہ ''سیمی کے مقاصد ملک کے قوانین کے خلاف ہیں کیونکہ تنظیم کا مقصد طلبہ اور نوجوانوں کو اسلام کی تبلیغ کے لیے متحرک کرنا اور 'جہاد' کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے۔''

حکومت نے اپنے حلف نامے میں اس بات پر زور دیا کہ کئی برسوں کی پابندی کے باوجود اسٹوڈٹنس اسلامک مومنٹ آف انڈیا مختلف دیگر تنظیموں کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے، اس لیے تنظیم پر پابندی جاری رکھنے کا فیصلہ درست ہے۔

India - Gangasagar
تصویر: Satyajit Shaw/DW

اس حلف نامے پر بدھ کے روز جسٹس سنجے کشن کول کی قیادت والی بنچ نے غور کیا۔ سیمی کے ایک سابق رکن کی طرف سے درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) قانون (یو اے پی اے) کے تحت قائم ٹرائیبونل کے سن 2019 کے پابندی کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سیمی پر حکومت کا موقف کیا ہے؟

سب سے پہلے 27 ستمبر سن 2001 میں اس وقت کی بی جے پی کی حکومت نے سیمی پر پابندی عائد کی تھی، جب لال کرشن اڈوانی ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ اس وقت سے اس پر مسلسل پابندی عائد ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پہلی پابندی کے بعد ایک مختصر مدت کے علاوہ، یہ تنظیم خفیہ طور پر سرگرم رہی ہے۔

 اس نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ سیمی کے کارکن آپس میں مل رہے ہیں، ''ملاقاتیں کر رہے ہیں، سازش کر رہے ہیں، اسلحہ اور گولہ بارود حاصل کر رہے ہیں، اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو خلل ڈالنے کے ساتھ ہی بھارتی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔''

مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں مزید کہا، ''ان کے بیان کردہ مقاصد ہمارے ملک کے قوانین کے خلاف ہیں۔ خاص طور پر بھارت میں اسلامی حکمرانی کے قیام کے ان کے مقصد کو کسی بھی صورت میں برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔''

تاہم تنظیم ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مسلم طلبہ کی ایک تعلیمی و ثقافتی تنظیم ہے، جس کا مقصد طلبہ میں محض اسلامی روایات کا احیا ہے۔  

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت میں تین درجن سے زائد دیگر مسلم تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے سیمی کے مقصد کو جاری رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ ''یہ فرنٹ آرگنائزیشن مختلف سرگرمیوں میں سیمی کی مدد کرتی ہیں جن میں فنڈز اکٹھا کرنا، لٹریچر کی گردش، کیڈرز کو دوبارہ منظم کرنا وغیرہ شامل ہے۔''

حکومت نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اس عرضی کو خارج کر دے جس میں سیمی کو ''غیر قانونی ایسوسی ایشن'' کے طور پر پابندی لگانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

تاہم سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مرکز کے حلف نامہ پر جواب داخل کرنے کے لیے اس بنیاد پر وقت مانگا کہ اسے حکومت کے الزامات کی جانچ کے لیے وقت دیا جائے۔

بھارتی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی ہوئی؟