1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ملک گیر ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر

جاوید اختر، نئی دہلی
8 جنوری 2020

بھارت میں ٹریڈ یونینوں کی اپیل پر آج ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی شدید متاثر ہیں۔ ہڑتال کے دوران کئی ریاستوں سے پرتشدد واقعات کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VtLa
Indien Streiks von Arbeiters
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Adhikary

مغربی بنگال اور کرناٹک میں ہڑتال کے دوران تشدد کے واقعات پیش آئے۔ مغربی بنگال میں مظاہرین نے کئی مقامات پر ریلوے ٹریک جام کردیا جس کی وجہ سے کئی درجن ٹرینوں کو منسوخ کرنا پڑا۔ کرناٹک میں ہڑتال کے دوران بسوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

مزدور یونینوں کے مطابق یہ ہڑتال بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کی عوام اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف کی گئی ہے۔ ہڑتال کی اپیل کرنے والی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ غیرمنظم سیکٹر کے مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ کم از کم 21 ہزار روپے کی جائے، انہیں یکساں کام کے لیے یکساں تنخواہ دی جائے۔ اس کے علاوہ وہ ریلوے، پٹرولیم، ڈیفنس، انشورنس اور فضائی سیکٹر میں نجکاری کی بھی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت لیبر کوڈ کے نام پر لیبر قوانین میں تبدیلی کر کے مزدوروں کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

Indien Streiks von Arbeiters
کنفیڈریشن آف انڈین ٹریڈ یونینز کے ایک رہنما دیباش چوبے کے مطابق اس ہڑتال میں عام لوگ شامل ہیں۔ کیوں کہ صرف مزدور ہی نہیں کسان بھی مودی حکومت سے ناراض ہیں۔تصویر: Reuters/D. Siddiqui

خیال رہے کہ مودی حکومت لیبر اور مزدوروں سے متعلق موجودہ 44 قوانین کو ختم کر کے ان کی جگہ ایک نیا لیبر کوڈ لانے پر غور کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں مودی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا: ”مودی۔شاہ حکومت کی عوام مخالف اور مزدور مخالف پالیسیو ں نے بھیانک بے روزگاری پیدا کردی ہے۔ مودی اپنے سرمایہ دار دوستوں کی مدد کرنے کے لیے پبلک سیکٹر کے اداروں کو مسلسل کمزور کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف آج 25 کروڑ لوگوں نے 'بھارت بند 2020‘ ہڑتال کی ہے۔ میں ان سب کو سلام کرتا ہوں۔"

ہڑتال کی اپیل کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ مزدوروں اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے مودی حکومت سے ایک عرصے سے اپیل کر رہی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، جس کی وجہ سے انہیں ملک گیر ہڑتال کا قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔

کنفیڈریشن آف انڈین ٹریڈ یونینز کے رہنما انوراگ سکسینا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ مہنگائی کے مطابق نان اسکلڈ مزدروں کی تنخواہ 21 ہزار روپے ماہانہ ہونی چاہیے اور ریٹائر ہونے والے مزدوروں کو کم از کم دس ہزار روپے پنشن ملنی چاہیے۔ مستقل کاموں کے لیے کنٹریکٹ سسٹم بند ہونا چاہیے، جس کا ذکر پہلے سے ہی کنٹریکٹ لیبر قانون میں موجود ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، ”لیبر قوانین میں تبدیلی کر کے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ہم اس کے خلاف ہیں۔ یہی نہیں آنگن واڑی، آشا اور مڈڈے میل جیسے پروگراموں میں کام کرنے والوں سے کام تو پورا لیا جاتا ہے لیکن مرکزی حکومت انہیں ملازم کا درجہ نہیں دیتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ملازمین کا درجہ ملے۔"

کنفیڈریشن آف انڈین ٹریڈ یونینز کے ایک اوررہنما دیباش چوبے کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ہڑتال میں عام لوگ شامل ہیں۔ کیوں کہ صرف مزدور ہی نہیں کسان بھی مودی حکومت سے ناراض ہیں: ”آپ دیکھیے ملک میں کسانوں کی خودکشی کتنی بڑھ گئی ہے۔کھاد سے لے کر ڈیزل تک کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ایسے میں غریب کسان کس طرح اپنی فصل کی لاگت نکال پائے گا؟ حکومت کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت بھی نہیں دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت منافع والی سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، ہر سیکٹر میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ہم ملک کے نوجوانوں، کسانوں، مزدوروں کی بات حکومت تک پہنچانے کے لیے جمہوری طریقے سے ہڑتال کررہے ہیں۔"

Indien Protest in Neu Delhi
مزدور یونینوں کے مطابق یہ ہڑتال بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کی عوام اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف کی گئی ہے۔تصویر: DW/S. Ghosh

دوسری طرف حکومت نے ہڑتال پر جانے والے سرکاری ملازمین کو دھمکی بھرا نوٹس جاری: ”آئین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو ملازمین کو ہڑتال پر جانے کا حق دیتی ہو۔کوئی بھی ملازم اگر ہڑتال میں شامل پایا گیا تو اسے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے خلاف تنخواہ کاٹ لینے سے لے کر ضابطہ کی کارروائی تک کی جاسکتی ہے۔"

سابق مرکزی وزیر شرد یادو نے ہڑتال کی تائید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”یہ وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ حکومت آئین مخالف، دلت مخالف، پسماندہ طبقات مخالف، غریب مخالف اور اقلیت مخالف ہے اور عوام مخالف اقدامات میں مصروف ہے۔"

آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہڑتال کی وجہ سے 22 ہزار سے 25 ہزار کروڑ روپے کے قریب نقدی اور چیکوں سے لین دین متاثر ہوا ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے کئی شہریوں میں اے ٹی ایم سے پیسے نہیں نکل رہے ہیں۔

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔