1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کرناٹک میں حجاب کرنے والی طالبات کلاس روم سے باہر

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
20 جنوری 2022

ریاست کرناٹک کے سرکاری کالج میں حجاب کرنے والی طالبات گزشتہ بیس روز سے کلاس روم کے باہر بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کے  کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تاہم مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے.

https://p.dw.com/p/45pGo
Indien Schule Mädchen Hijab Kopftuch Diskriminierung
تصویر: Massod Manna

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں ایک سرکاری کالج کی بہت سی مسلم طالبہ گزشتہ تقریبا بیس روز سے کالج کے احاطے میں باہر بیٹھ کر تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اسکول کی انتظامیہ حجاب کرنے کی وجہ سے انہیں کلاس روم میں جانے  کی اجازت نہیں دے رہی۔

 کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسکارف یا پھر برقع پہننا کالج ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی ہے اس لیے ان طالبات کو کلاس میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ طالبات کا کہنا ہے کہ اسکول کے اصول و ضوابط میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ہے۔ حجاب کرنا ان کا مذہبی حق ہے، جس سے انہیں زبردستی باز رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں کالج کی طالبات نے پہلی بار 31 دسمبر کو احتجاج  کیا تھا اور تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ تمام لڑکیاں درسگاہ میں آتی ہیں تاہم انہیں کلاس روم میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا، جس کی وجہ سے وہ باہر ہی بیٹھ کر پڑھتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی احتجاج بھی کرتی ہیں۔ ان بیشتر طالبات کا تعلق گیارہویں اور بارہویں جماعت سے ہے۔

کالج کا موقف

کالج کے پرنسپل رودر گوڑا ایس نے اس سلسلے میں بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اسکارف یا پھر برقع پہننا اسکول کے یونیفارم اور اصولوں کے خلاف ہے اسی لیے کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ ان سے جب یہ سوال پوچھا گيا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا، "مساوات اور شناخت کے مقصد" سے ایسا کیا گيا ہے۔

Indien Schule Mädchen Hijab Kopftuch Diskriminierung
تصویر: Massod Manna

تاہم ریاست کرناٹک میں سرکاری اسکول یا کالجز سے متعلق ایسا کوئی اصول نہیں ہے اور بہت سے کالجز میں اسکارف یا برقعے پر پابندی بھی عائد نہیں ہے۔ ریاست کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے، "طلبہ کو اصول و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے۔"

انہوں نے کہا کہ اسکول کی بیشتر مسلم طالبات کو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور صرف کچھ طالبات ہی اس پر بضد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر سیاست ہو رہی ہے، "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی یونیفارم کوڈ نہیں ہے تاہم ماضی میں ایک یونیفارم ڈریس پر اتفاق ہوا تھا، جس پر عمل ہوتا رہا ہے اور ان طالبات کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔"

طالبات کا موقف

اسکول کی طالبات نے ڈی ڈبلیو اردو کی درخواست پر اپنی کچھ ویڈیوز ریکارڈ کر کے بھیجی ہیں،جن میں وہ کہتی ہیں کہ حجاب پہننا ایک مذہبی طریقہ کار ہے اور اس پر، "عمل کرنا ان کا بنیادی حق بھی ہے۔ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں۔ آخر اس چیز کو اس طرح کیوں پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہم جرائم کر رہے ہوں۔"

طالبات کا کہنا تھا کہ اب تقریبا بیس روز ہو چکے ہیں جب سے انہیں کلاس روم میں داخلے کی اجازت نہیں اور انہیں غیر حاضر قرار دیا جا رہا ہے،"مذہب پر عمل کرنا ہے تو ہمارا حق ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں ایسے بہت سے دیگر واقعات ہوئے ہیں جن میں، ہمارے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تفریق برتی گئی، تاہم ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔"

Indien Schule Mädchen Hijab Kopftuch Diskriminierung
تصویر: Massod Manna

بی جے پی پر سیاست کرنے کا الزام

ریاست میں مسلم طلبہ کی ایک تنظیم 'کیمپس فرنٹ آف انڈیا" سے وابستہ ایک کارکن مسعود منّا کا کہنا ہے کہ اس بارے میں انتظامیہ خود الجھن کا شکار ہے اور ابھی تک اس کی جانب سے حجاب پر پابندی کے حوالے سے کوئی معقول جواب نہیں آیا ہے، "سب کو معلوم ہے کہ ریاست میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو یونیفارم پہننا لازم نہیں تو پھر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے اسی لیے اسکول انتظامیہ کبھی کچھ تو کبھی کچھ بیان دے رہی ہے،’’ یہاں تو لڑکیال اسکول میں بندی لگاتی ہیں، چوڑیاں پہنتی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر مذہبی رسومات کے لباس اور کوسٹیوم ایک عام سی بات ہے، بس ان لڑکیوں پر ہی اس طرح کی پابندی ہے اور انہیں اسکارف پہننے سے روکا جا رہا ہے۔"

مسعود منا کے مطابق یہ کوئی نجی کالج تو ہے نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ہے اور ریاست میں حکومت نے اس حوالے سے کوئی خاص اصول مرتب نہیں کیے ہیں،’’دوسرے کالجز میں تو اس کی اجازت ہے۔ لڑکیاں اسکول یونیفارم کی مخالفت بھی نہیں کر رہی ہیں بلکہ اسی رنگ کے دوپٹے کو صرف اسکارف کے طور پر پہن رہی ہیں اور اس پر بھی اعتراض ہے۔‘‘
ان کا الزام ہے کہ یہ اسکول اس علاقے میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقامی رہنما ہیں یہ، "اسکول ان کے اثر و رسوخ میں ہے اور وہی سیاست کے پیش نظر اس معاملے کو فرقہ پرستی کا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسکول کے پرنسپل بھی انہیں کے دباؤ میں اسی لیے اس طرح کا سخت رویہ اپنا رکھا ہے۔"

بھارت میں ’تین طلاقیں‘ مذہبی یا سیاسی مسئلہ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں