1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، تاخیر کے باوجود اسقاط حمل کی اجازت کا خیر مقدم

14 دسمبر 2022

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہائی کورٹ نے 33 ہفتوں کی حاملہ کسی بھی خاتون کو اسقا ط حمل کی اجازت دے دی۔ جسٹس پرتھیبا ایم سنگھ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات میں حتمی فیصلہ کرنے کا حق ماں کو ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4Ktkl
 BG USA Nach dem Urteil des Oberste Gerichtshofs zum Abtreibungsrecht | Proteste in Washington
تصویر: Brendan McDermid/REUTERS

اسقاط حمل پر بھارت کے قوانین کیا ہیں؟

 اس عدالتی فیصلے کو متنازعہ قرار دیا جار ہے۔ اس کی وجہ  یہ ہے کہ  بھارت میں عام طور پر حمل ٹھہر جانے کے  24 ویں ہفتے تک اسقاط حمل کی اجازت ہے۔

میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی) ایکٹ 1971ء میں نافذ ہوا تھا تاکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی اسقاط حمل کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح کو کم کیا جاسکے۔ اس کے بعد سے اس ایکٹ میں مختلف ترامیم کی گئی ہیں۔

2021 میں اس ایکٹ میں غیر شادی شدہ خواتین کے لیے قانونی اسقاط حمل کا حق شامل کرنے کے لیے  توسیع کی گئی تھی جس کے نتیجے میں 24 ہفتوں تک کا حمل گرائے جانے پر  اتفاق کیا گیا۔ اسے ایک تاریخی اقدام قرار دیا گیا تھا۔  بھارت میں عام طور پر خواتین حمل کے 20 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی تھیں۔

اس ترمیم نے بعض صورتوں  میں اس مدت کو بڑھا کر 24 ہفتے کر دیا ہے۔  ان صورتوں میں نابالغ، ریپ سے بچ جانے والی خواتین، جن خواتین کی ازدواجی حیثیت بدل گئی ہے، وہ خواتین جو ذہنی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار ہیں، انسانی بحران میں مبتلا خواتین اور حمل کے دوران  جنین میں بے ضابطگیوں کا شکار خواتین شامل ہیں۔

اس سال ستمبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ''عورت‘‘کی اصطلاح صرف خواتین تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام افراد پر لاگو ہے جنہیں محفوظ اسقاط حمل تک رسائی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ایم ٹی پی ایکٹ میں میریٹل ریپ کو شامل کرنے کے لیے ''ریپ‘‘کی تعریف میں وسعت کی  جائے۔

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟

 میڈیکل بورڈکالعدم

ایسے معاملات میں جب عورت 20 ہفتوں سے زیادہ حاملہ ہو تو عدالتیں عام طور پر یہ فیصلہ کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کے تجزیے اور سفارش پر انحصار کرتی ہیں کہ آیا اسقاط حمل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عورت کی جسمانی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔ نومبر میں 26 سالہ کاویہ (فرضی نام) اور اس کے شوہر نے 33 ہفتوں میں اپنا حمل ختم کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی۔

اس جوڑے کی نمائندگی کرنے والے وکیل انوش مادھوکر نے کہا، ''یہ ان کی زندگی کے سب سے مشکل فیصلوں میں سے ایک تھا اور اس نے ان پر اثر ڈالا ہے۔‘‘ چار الٹراساؤنڈ اسکینوں سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنین میں مسئل تھا۔ لیکن میڈیکل بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ کاویہ کا جنین ''زندگی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے‘‘اور ''ڈلیوری کے بعد جراحی سے اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بورڈ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ڈیلیوری کے بعد بچے میں ممکنہ معذوری کی ''پیش گوئی‘‘ نہیں کی جا سکتی ہے اور سفارش کی ہے کہ کاویہ کو اسقاط حمل سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن آخر کار عدالت نے کاویہ کی ذہنی صحت اور ذاتی پسند کو مدنظر رکھا اور اس کے حمل کو ختم کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔

فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس پرتیبھا نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اسقاط حمل کی اجازت دینے یا انکار کرنے کے بجائے میڈیکل بورڈ کو صرف معیاری تجزیہ فراہم کرنے پر قائم رہنا چاہیے۔

تاریخی فیصلہ

وکیل انوش مادھوکر نے عدالت کے فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''اگر عدالت ہمیشہ صرف میڈیکل بورڈ کی رائے پر انحصار کرتی ہے تو عورت کی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ کاویہ یا اس کے شوہر کے لیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔‘‘ مادھوکر نے مزید کہا، ''مجھے امید ہے کہ اس سے مزید خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ضرورت پڑنے پر عدالتوں کا رخ کریں۔‘‘

صنفی حقوق کی غیر منافع بخش تنظیم  سے تعلق رکھنے والی  پدما دیوستھلی نے کہا کہ تولیدی حقوق کے لیے لڑنے والے کارکنوں نے بھی کاویہ کے کیس پر عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اگرچہ بھارت نے اسقاط حمل کے حوالے سے نسبتاً ترقی پسندانہ انداز اپنایا ہے، ''ایم ٹی پی ایکٹ میں کی گئی ترامیم اب بھی ڈاکٹروں اور ان کی رائے پر مرکوز ہیں۔ اس لیے یہ خاص حکم خاصا غیر معمولی ہے۔‘‘

باویریا کے کیتھولک مسیحیوں میں اسقاط حمل متنازعہ

لیکن ممبئی کے کوپر ہسپتال کے شعبہ امراض نسواں کی سربراہ رینا وانی نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کو ''احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''میں یہاں 'ایم ٹی پی' کا لفظ استعمال نہیں کروں گی۔ حمل کے آخری مرحلے کی وجہ سے، ڈاکٹروں کو جلد مشقت دلانا پڑے گی اور اس بات کے امکانات ہیں کہ حمل گرانے کی کوشش کے باوجود بچہ زندہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اگر بچہ زندہ پیدا ہوتا ہے تو قانون اس کیس کو کیسے سنبھالے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے احکامات نے ڈاکٹروں پر بہت زیادہ ذمہ داری اور دباؤ ڈالا ہے، جس سے صحت کے ماہرین مستقبل میں اسقاط حمل کے بارے میں شکوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔

محفوظ اسقاط حمل تک محدود رسائی

ماہرین صحت یہ بھی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی کمی اور صحت کا کمزور ڈھانچہ محفوظ اسقاط حمل کے نتائج کو متاثر کرتا ہے۔

2019-20 میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت نے اطلاع دی کہ بھارت کے دیہی علاقوں کو ماہر امراض نسواں کی 70 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ ملک میں ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ غیر محفوظ اور غیر قانونی اسقاط حمل کرائے جاتے ہیں۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں میں تقریباً 3 فیصد حمل ساقط کرا دیے جاتے  ہیں۔

ندھی سریش ( ش ر⁄ ر ب )