1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

بوریت کچھ بھی نہ کرنے سے مختلف ہوتی ہے، جرمن ماہر سماجیات

16 اپریل 2023

کیا آپ کو بھی روزمرہ زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا رہا ہے کہ آپ کچھ بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور بوریت کے باعث تقریباﹰ بیزار ہو گئے ہوں؟ ایک معروف جرمن ماہر سماجیات کے مطابق بوریت کچھ نہ کرنے کی خواہش سے مختلف ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4PsZG
Sad adult woman bored at home
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Ben-Ari

آج کل کی تیز رفتار زندگی میں بوریت کے احساس سے کون واقف نہیں۔ اکثر سمجھا یہ جاتا ہے کہ بور ہونا یا کسی کام میں دل کا نہ لگنا محض ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ لیکن معروف جرمن ماہر سماجیات سِلکے اوہلمائر کہتی ہیں کہ بوریت کوئی انفرادی نہیں بلکہ انسانوں کا ایک اجتماعی سماجی مسئلہ ہے۔

بھارتی فلم انڈسٹری میں خودکُشیوں کا بڑھتا رجحان

ابھی حال ہی میں سِلکے اوہلمائر کی ایک نئی کتاب بھی شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے: ''بوریت سیاسی ہوتی ہے۔‘‘ اوہلمائر انسانوں میں بوریت کے مسئلے کا ایک اجتماعی معاشرتی احساس کے طور پر جائزہ لیے جانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

’بوریت کچھ بھی نہ کرنے سے مختلف ہوتی ہے‘

سِلکے اوہلمائر نے نیوز ایجنسی کے این اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ آج کل کے معاشروں میں بوریت سے مراد یہ بھی لی جاتی ہے کہ جب آپ کا کچھ بھی نہ کرنے کو جی چاہ رہا ہو۔ لیکن ''بوریت کچھ بھی نہ کرنے کی خواہش سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ہمارے ارد گرد کے سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی ڈھانچوں کے باعث ہم پر پڑنے والے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کا ایک پہلو سیاسی بھی ہے۔‘‘

Upset bored mature adult man holding his head in frustration
دنیا کے بہت سے ممالک میں کروڑوں انسانوں کو مسلسل بوریت کا سامنا کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گھروں میں ہی رہنے کے دوران کرنا پڑاتصویر: picture-alliance/dpa/R. Ben Ari

جرمنی میں مہاجرین کی بوریت دور کرنے کا نیا طریقہ

اس جرمن مصنفہ کے بقول روزمرہ زندگی میں اکثر بوریت اور کچھ نہ کرنے کی خواہش کو یکساں سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان کے بقول یہ دونوں باتیں یکساں نہیں ہیں۔

اوہلمائر نے اپنے انٹرویو میں کہا، ''صرف کچھ نہ کرنے کی خواہش ہی بوریت نہیں ہوتی۔ بوریت کسی بھی کام میں عدم دلچسپی سے کہیں بڑھ کر اور ایک ایسا سوال ہوتی ہے کہ ''صورت حال اور فرد کے مابین ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے؟‘‘

اس کی ایک مثال دیتے ہوئے سِلکے اوہلمائر کہتی ہیں، ''ممکن ہے کہ کوئی انسان کھڑکی کے سامنے کھڑا باہر دیکھ رہا ہو اور بوریت محسوس کرے۔ لیکن یہی صورت حال اس کے لیے بہت پرسکون اور ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث بننے والی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے بوریت سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی فرد اور اس کی صورت حال کے مابین مطابقت یا ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔‘‘

جرمن شہر میں ٹریفک سگنل پر راہگیروں کے لیے ویڈیو گیم

Einsamkeit
بوریت کا احساس اکثر تنہا لوگوں کو زیادہ ہوتا ہےتصویر: Thomas Trutschel/photothek/picture alliance

تنہائی سے متعلقہ امور کی وزارت

سِلکے اوہلمائر نے بوریت کو ایک اجتماعی سماجی مسئلہ قرار دیتے اور اس کے سماجی حل کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے یہ حوالہ بھی دیا کہ اس بارے میں برطانیہ میں 2018ء میں ایک فیصلہ کن قدم اس وقت اٹھایا گیا تھا، جب وہاں تنہائی سے متعلقہ امو رکی ملکی وزارت قائم کر دی گئی تھی۔

یورپی یونین کا نیا مرکزی ادارہ، نام مردم بیزار سوچ کا عکاس؟

برطانیہ میں اس نئی وزارت کے قیام کے بعد نہ صرف اس مسئلے کے بارے میں عوامی شعور میں واضح تبدیلی آئی بلکہ یہ بھی طے ہو گیا کہ تنہائی، جو بوریت کی بھی وجہ بنتی ہے، پورے معاشرے کا مسئلہ ہے اور معاشرتی سطح پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔

تنہائی عذاب یا دوست

سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب بنتا ہے؟

'بوریت سیاسی ہوتی ہے‘ کی مصنفہ کے مطابق عام انسان کئی طرح کے حالات میں بوریت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مثلاﹰ جب ان کے پاس کرنے کو کافی کچھ نہ ہو، جب کرنے کو بہت کچھ ہو، جب یہ احساس ہو کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ بےمعنی ہے یا پھر ایسے حالات جن میں کوئی انسان مصروف تو بہت ہو لیکن اس کے باوجود اسے اپنی ذات میں خلا محسوس ہوتا ہو، جس کے لیے انگریزی میں busy bored کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

زیادہ سوچنے اور پریشان کن خیالات سے بچاؤ کیسے ممکن؟

اس جرمن سوشیالوجسٹ کے مطابق جو کچھ عام انسان کرتے ہیں، اس میں دلچسپی کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا کہ آپ کوئی کام کتنا زیادہ کرتے ہیں۔ ''اس کے برعکس زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کسی کام میں آپ کی دلچسپی کتنی ہے۔‘‘

اوہلمائر کا مشورہ ہے، ''کسی بھی عام انسان کو خود سے یہ سوال اکثر پوچھتے رہنا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، یا جس طرح بھی زندگی گزار رہا ہے، وہ خود اسے کتنے دلچسپ لگتے ہیں؟‘‘

م م / ش ر (کے این اے)