1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

کشتیوں میں آنے والوں کو پناہ دینے پر پابندی کا برطانوی پلان

7 مارچ 2023

برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے پناہ کی تلاش میں غیر مسلمہ راستوں سے آنے والے تارکین وطن کے برطانیہ میں داخلے کو روکنے کے لیے نئی قانونی منصوبہ بندی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4OLVT
UK I Dover I Migration I Vier Tote nach Bootsunglück
تصویر: Peter Nicholls/REUTERS

 

لندن حکومت نے منگل کے روز ایک بیان میں انکشاف کیا کہ غیر مسلمہ راستوں اور غیرقانونی طریقوں سے برطانیہ میں داخل ہونے والے اور پناہ کے خواہش مند ہزاروں غیر ملکیوں کی آمد کو رکنے کے لیے ایک نیا قانون منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم رشی سوناک کے مطابق اس منصوبے کا مقصد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ کے ساحلی علاقوں تک پہنچ کر ملک میں پناہ کی درخواستیں دینے والے ہزارہا تارکین وطن کو روکنا ہے۔ اس ضمن میں سوناک کی پانچ کلیدی ترجیحات پر مبنی پالیسیوں میں چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر رودبار انگلستان کے راستے ساحل تک پہنچنے والوں کی حوصلہ شکنی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ رشی سوناک کی حکومت نے اس اقدام کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب برطانیہ  کے جنوبی ساحلی علاقوں تک پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔

گزشتہ برس 45 ہزار تارکین وطن برطانوی ساحلی علاقوں تک پہنچے تھے، جن میں سے  تقریباً 90 فیصد نے بعد میں اپنی پناہ کی درخواستیں بھی جمع کرا دی تھیں۔

UK, Dover | Bootsunglück im Ärmelkanal
انگلش چینل میں حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی کشتیتصویر: Peter Nicholls/REUTERS

نئے قانون کا اطلاق کس پر؟

برطانوی حکومت کی طرف سے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی روک تھام کی خاطر نئی قانون سازی کا مقصد آئندہ ایسے تمام افراد کو ملک بدر کرنا ہے، جو چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر برطانوی ساحلی علاقوں تک پہنچیں گے اور بعد میں پناہ کی درخواستیںدینے کی کوشش کریں گے۔ ایسے تارکین وطن کو  ملک بدر کر کے کسی بھی تیسرے لیکن محفوظ ملک میں بھیج دیا جائے گا۔ اس موضوع پر وزیر اعظم رشی سوناک کا ایک مضمون منگل کو برطانوی اخبار 'دا سن‘ میں شائع ہوا۔ رشی سوناک نے لکھا، ''چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے والے تارکین وطن دراصل براہ راست کسی جنگ زدہ ملک سے نہیں آتے اور نہ ہی ان کی زندگیوں کو کوئی سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے تارکین وطن انگلش چینل پار کرنے سے پہلے کسی نہ کسی محفوظ یورپی ملک سے گزر کر ہی برطانیہ پہنچتے ہیں۔‘‘

رشی سوناک نے مزید لکھا، ''یہ تارکین وطن ایسا کر سکتے ہیں، تنہا یہ حقیقت ہی ان کے ساتھ ایک طرح کی نا انصافی ہے، جو  قانونی طریقوں سے برطانیہ پہنچتے ہیں۔ لیکن اب بہت ہو چکا۔ یہ نیا قانون ایک واضح اشارہ ہو گا، ایسے تمام افراد کے لیے۔ اگر آپ غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوں گے، تو آپ کو جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘‘

England | Migranten in Dover
سنگین خطرات کے باوجود بڑی تعداد میں پناہ کے متلاشی کشتیوں میں سوار ہو کر یورپ کا رُخ کرتے ہیںتصویر: Henry Nicholls/REUTERS

برطانوی سیاست میں اہم موضوع

عوامی رائے سے متعلق سروے کرانے  والے ایک آن لائن پورٹل YouGov کی طرف سے گزشتہ نومبر میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق برطانیہ میں امیگریشن کنٹرول کا مسئلہ حکومت کو درپیش متعدد بڑے مسائل میں سے تیسرا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے افراد میں سے 87 فیصد کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے سے بہت بری طرح نمٹ رہی ہے۔

2022ء میں برطانیہ میں دی گئی پناہکی درخواستوں کی تعداد تقریباً 75 ہزار رہی تھی، جو گزشتہ 20 سالوں کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد قرار دی جاتی ہے۔ یہ تعداد تاہم یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایسی اوسط تعداد سے پھر بھی کم تھی۔ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں گزشتہ برس تارکین وطن کی طرف سے پناہ کی دو لاکھ چالیس ہزار درخواسیتں جمع کرائی گئی تھیں۔

ک م / م م (روئٹرز)