1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں حکومتی عمارتوں میں چینی ساختہ کیمروں پر پابندی

25 نومبر 2022

برطانوی حکومت کے زیر استعمال عمارتوں میں جو سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، ان میں سے بیشتر دو چینی کمپنیوں کے تیار کردہ ہیں۔ قانون ساز چین میں سلامتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4K2Je
London | Überwachungskamera Big Ben
تصویر: Jan Haas/picture alliance

برطانوی حکومت  نے 24 نومبر جمعرات کے روز اپنے مختلف محکموں کو حکم دیا کہ ممکنہ حفاظتی خطرات کے پیش نظر حساس عمارتوں کے اندر چینی کمپنیوں کے تیار کردہ حفاظتی کیمروں کی تنصیب کے عمل کو روک دیا جائے۔ 

چین کے خلاف امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کا دفاعی معاہدہ

حکومت نے سرویلینس سسٹمز سے لاحق ممکنہ موجودہ اور مستقبل کے حفاظتی خطرات کے اندرونی جائزے کی بعد یہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔

کیا جرمن چانسلر کا دورہ بیجنگ چین پر یورپی یونین کے اختلافات کو بے نقاب کرتا ہے؟

برطانوی کابینہ کے آفس وزیر اولیور ڈاؤڈن نے پارلیمنٹ کے اندر اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ سکیورٹی، ''جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانیہ کو لاحق خطرات اور ان سسٹمز کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں اور ان کے روابط کی روشنی میں، اضافی کنٹرول کی ضرورت ہے۔''

اب یونان کی سب سے بڑی بندرگاہ کا باس چین ہے

انہوں نے کہا کہ مختلف وزارتوں کو ان کیمروں کو اپ گریڈ کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے ان کو تبدیل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

ایغور معاملے پر برطانیہ اور چین کے مابین کشیدگی

دو چینی کمپنیوں پر نظر

گزشتہ جولائی میں پرائیویسی ایڈووکیسی گروپ 'بگ برادر واچ' نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کے زیر استعمال زیادہ تر نگرانی کے کیمرے دو چینی کمپنیوں، 'ہیک ویژن' اور 'داہوا'  کے ذریعے تیار گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے سامنے آنے کے فوری بعد 67 برطانوی قانون سازوں نے جزوی طور پر چینی حکومت کی ملکیت والی دونوں کمپنیوں کے ذریعے تیار کردہ ان آلات پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ برطانوی ارکان پارلیمان نے اس کے لیے پرائیویسی کے خدشات اور سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روابط کا بھی حوالہ دیا تھا۔

London | Überwachungskamera Big Ben
پرائیویسی ایڈووکیسی گروپ 'بگ برادر واچ' نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کے زیر استعمال زیادہ تر نگرانی کے کیمرے دو چینی کمپنیوں کے تیار کردہ ہیںتصویر: Jan Haas/picture alliance

ڈاؤڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ جو کمپنیاں چین کی قومی انٹیلیجنس کے قانون سے مشروط ہیں، انہیں بیجنگ کی سکیورٹی سروسز کو معلومات فراہم کرنے پر مجبور بھی کیا جا سکتا ہے۔

چینی کمپنی ہیک ویژن نے برطانوی حکومت کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں انہیں پوری طرح سے من گھڑت بتایا ہے۔

کمپنی نے جمعرات کے روز ہی ایک بیان میں کہا، ''ہیک ویژن صارفین کے ڈیٹا کو تیسرے فریق تک منتقل ہی نہیں کر سکتی، ہم تو حتمی صارف کے ڈیٹا بیس کا نظم و نسق بھی نہیں کرتے، اور نہ ہی ہم برطانیہ میں کلاؤڈ اسٹوریج فروخت کرتے ہیں۔''

رواں برس مئی میں کینیڈا کی حکومت نے اپنے ملک میں تیز رفتار فائیو جی موبائل نیٹ ورکس کے لیے کام کرنے والی چین کی مواصلات کی دو معروف کمپنیوں، ہواوے اور زیڈ ٹی ای، پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انٹیلیجنس کے لیے 'فائیو آئیز' نامی گروپ میں شامل امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے کینیڈا کے اتحادیوں نے پہلے ہی سے ہوائی نامی چین کی کمپنی پر پابندی لگا دی تھی۔

ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے کو، تکنیکی سطح پر عالمی طاقت بننے میں، چین کی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم یہ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے خدشات کا ایک اہم موضوع بھی ہے۔

بھارت نے بھی اس چینی کمپنی کو فائیو جی نیٹ ورکس میں کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

يورپ کا چينی سولر مصنوعات پر انحصار کم کرنے کا منصوبہ