1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے ليے اسلحہ ضروری، صحت اور تعلیم اتنی اہم نہيں

عاصم سلیم
13 جون 2020

پاکستان ميں آئندہ مالی سال يعنی 2020ء اور 2021ء کے ليے 7.13 ٹريلين روپے کا بجٹ پيش کيا گيا، جس پر ايک طرف اپوزيشن تو دوسری جانب سوشل میڈیا پليٹ فارمز پر عام صارفين حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3diZ4
Pakistan Armee | Soldat vor Moschee in Karachi
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabussum

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے جمعہ بارہ جون کو اگلے مالی سال کے ليے بجٹ تجاويز پيش کيں۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال دفاعی بجٹ میں 11.8 فیصد کا اضافہ تجويز کیا گیا ہے۔ يوں دفاعی شعبے کے لیے 1,289 بلين يا تقريباً 1.3 ٹريلين روپے رکھے گئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے ہائر ايجوکيشن کميشن کو اضافی طور پر پانچ ارب روپے کے ساتھ کُل چونسٹھ بلين روپے دینے کی سفارش کی گئی ہے جب کہ تعليم کے شعبے ميں اصلاحات کے لیے مزيد پانچ بلين روپے اور جدت کے لیے تيس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے تحت سات بلين روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام يا پی ايس ڈی پی کی مد ميں 650 بلين روپے مختص کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازيں پینشن کے ليے 1.3 فيصد اضافے کے ساتھ 470 بلين روپے رکھے گئے ہيں۔ احساس پروگرام کے لیے معمولی اضافے کے ساتھ 208 بلين روپے مختص کیے گئے ہيں۔

مالی سال 2020ء اور 2021ء کے بجٹ ميں سگریٹ، الیکٹرانک سگریٹ، بیڑی، سگارز اور تمباکو کی دیگر مصنوعات پر عائد ایف ای ڈی میں 35 فیصد کا اضافہ تجويز کیا گیا ہے۔ مہنگائی کو 9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد تک لانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

پاکستان تحريک انصاف کی حکومت نے اسے ایک 'ريليف بجٹ‘ کہا ہے تو حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان پيپلز پارٹی، پاکستان مسلم ليگ ن اور جمیعت علمائے اسلام نے اسے 'عوام دشمن بجٹ‘ قرار ديا ہے۔ بجٹ تقرير کے دوران اپوزيشن پارٹيوں کے ارکان نے قومی اسمبلی ميں اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر اس کے خلاف احتجاج بھی کيا تھا۔ ٹوئٹر پر ايک صارف نے اس کی ایک ويڈيو بھی شيئر کی ہے۔

سوشل میڈیا پر عوامی رد عمل

پاکستان ميں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر لوگ اس بجٹ کو شدید تنقيد کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ ٹوئٹر پر کئی صارفين دفاعی بجٹ ميں اضافے پر بالخصوص نالاں دکھائی ديتے ہيں۔

صوبے خيبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعيل نے اپنی ايک ٹويٹ ميں پاکستانی فوج کا موازنہ ایک 'شکار کرنے والی قوت‘ سے کيا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے متوسط اور غريب طبقے شديد اقتصادی اور طبی بحرانوں کا شکار ہيں مگر پھر بھی فوج نے اپنا 'وسائل پر قبضہ‘ نہيں چھوڑا۔

خاتون صحافی اور وکيل عائشہ ٹيمی حق نے بھی دفاعی بجٹ ميں اضافے کو ہی ہدف تنقيد بنايا۔

بينظير شاہ نے اپنی ایک ٹويٹ ميں اس طرف توجہ دلائی کہ مجموعی قومی پيداوار سے موازنہ کيا جائے، تو پاکستان ميں دفاعی اخراجات کا تناسب خطے ميں چين، بھارت اور ايران سب سے زيادہ ہے۔

ٹوئٹر پر ہی ايک اور صارف ارتضیٰ اے قيوم نے PeopleRejectBudget2020 کے ہيش ٹيگ کے ساتھ بجٹ ميں ريکارڈ 3427 ارب روپے کے خسارے کی جانب توجہ دلائی۔

شيانہ ملک نے البتہ ايک مختلف زاویہ نظر پيش کيا اور اپنی ٹويٹ ميں عام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ غلط خبريں پھيلانا بند کريں۔ ان کے بقول بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے ميں آٹھ نو فيصد زيادہ ہے۔ انہوں نے يہ بھی لکھا کہ پاکستانی فوج محدود بجٹ کے باوجود سلامتی کی صورتحال قائم رکھنے ميں کامياب رہی ہے۔

سن 2020-21 کا بجٹ غیر معمولی حالات میں پیش کیا گیا ہے۔ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنيا کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کا سامنا ہے اور ايسے ميں کئی ممالک اور خطوں کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی بجٹ کے حوالے سے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کے روز اپنا ايک ویڈیو پیغام بھی جاری کيا، جو ريڈيو پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شيئر کيا گيا۔ اپنے اس بيان ميں وفاقی وزير نے حکومتی نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی۔