1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علامہ اقبال اور ایما ویگیناسٹ 'محبت کی ایک سلگتی چنگاری‘

9 نومبر 2022

علامہ اقبال کی شخصیت کا ایک پہلو حکیم الامت اور مفکر پاکستان کا ہے، جو اکثر درسی کتابوں اور 9 نومبر کو ہونے والی تقریبات کا موضوع ہوتا ہے۔ مگر ان کی شخصیت کا ایک رخ جذبات سے مغلوب نوجوان کا بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/4JF76
تصویر: www.allamaiqbal.com

ماہرین کے مطابق نوجوان اقبال کے جذباتی دور کی سب سے بہترین عکاسی ایما ویگیناسٹ کو لکھے ان کے خطوط کرتے ہیں۔ ان خطوط کی رومانوی فضا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اقبال کے جون 1908ء کو لکھے گئے ایک خط کا اقتباس دیکھیے:

”میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔آج کل بہار کا موسم ہے، سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے، آپ کا خط میری بہار ہو گا۔ میرے دل غمگین میں آپ کے لیے بڑے خوبصورت خیالات ہیں اور یہ خاموشی سے یکے بعد دیگرے آپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔"

ایما ویگیناسٹ کون تھیں؟

علامہ اقبالنے 1906ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے بی اے کے ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے 'ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘ نامی مقالہ لکھا اور اب وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اسی مقالے پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے وہ 1907ء کے موسمِ بہار میں جرمنی پہنچے، جہاں ان کی ملاقات ایما سے ہوئی۔

Pakistan Allama Iqbal, Dichter
علامہ اقبال نے 1906ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے بی اے کے ڈگری حاصل کی تھیتصویر: Iqbal Academy Pakistan/Wikipedia/gemeinfrei

1879ء میں دریائے نیکر کے کنارے واقع قصبے ہائلبرون میں پیدا ہونے والی ایما ویگیناسٹ اقبال سے عمر میں محض دو برس چھوٹی تھیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد وہ بین الاقوامی طلبہ کو جرمن زبان سکھاتی تھیں۔

میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن کے بعد اقبال کو تحقیقی مقالہ جرمن کے بجائے انگریزی زبان میں لکھنے کی اجازت مل گئی لیکن زبانی امتحان کے لیے جرمن کی شرط برقرار رکھی گئی۔ اب اقبال کا قیام ہائیڈلبرگ میں تھا، جہاں وہ ایما سے جرمن زبان سیکھ رہے تھے۔

اقبال کا ایما پر دل آنا باعث حیرت نہیں

’علامہ اقبال اور ایما کا تعلق، عشق یا سادگی کی انتہا؟‘ کے مصنف ظفر سید کے بقول ”ایک تو (ہائیڈل برگ) کا ماحول رومان پرور، اوپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین و جمیل ایما۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ ایک ہندوستانی شاعر کا دل ان پر آ گیا، نہ آتا تو حیرت ہوتی۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''اقبال کی پہلی شادی کریم بی بی سے 18 برس کی عمر میں کر دی گئی تھی، جس سے وہ شدید ناخوش تھے۔ ان کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عطیہ فیضی سے ایک خط میں ملک چھوڑنے، شراب میں پناہ لینے اور خودکشی تک کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک ذہین، علم و ادب سے شغف رکھنے والی اور خوبصورت جرمن خاتون سے ملاقات ان کے لیے غیر معمولی تسکین کا باعث ثابت ہوئی۔ وہ ایک طرح سے ان کے لیے آئیڈیل رشتہ تھا۔"

اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”یہ افلاطونی قسم کی محبت تھی، جس میں رومانس تو تھا مگر جنسی تلذذ نہیں۔"

کیا یہ اقبال کی زندگی کا سب سے خوبصورت دور تھا؟

اقبال کا ہائیڈل برگ میں محض چار ماہ قیام رہا مگر ایما کے نام اپنے خطوط میں وہ مسلسل اسے یاد کرتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں، ”براہِ کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے، جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں۔"

 ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ اقبال کی سوانح حیات زندہ رود میں لکھتے ہیں، ”اقبال کی زندگی کے بہترین لمحے ہائیڈل برگ میں گزرے۔ وہ یہاں بے حد خوش اور بے تکلف تھے۔ ہر کام میں بچوں کی طرح شریک ہوتے۔ ہر بات میں دلچسپی لیتے۔"

Deutschland Das Heidelberger Schloß in den Farben der ukrainischen Flagge beleuchtet
ایک تو (ہائیڈل برگ) کا ماحول رومان پرور، اوپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین و جمیل ایماتصویر: Daniel Kubirski/picture alliance

عطیہ فیضی اپنی کتاب اقبال میں لکھتی ہیں، ”جیسے جرمنی ان کے وجود اندر سما گیا تھا۔ وہ درختوں (کے نیچے سے گزرتے ہوئے) اور گھاس پر چلتے ہوئے علم کشید کر رہے تھے۔ اقبال کا یہ پہلو میرے لیے بالکل انوکھا تھا اور لندن میں جو ایک قنوطی کی روح ان میں حلول کر گئی تھی وہ یہاں یکسر غائب ہو گئی تھی۔"

ظفر سید کہتے ہیں، ”جیسے نوجوان پریمی کو اپنے محبوب سے نسبت رکھنے والی ہر چیز اچھی لگتی ہے ویسے ہی اقبال کے ساتھ ہوا۔ جب وہ بے چین ہو کر جرمنی کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل ایما کے ساتھ گزرے لمحات کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ گھوئتے اور جرمنی کے فلسفی اقبال کو اچھے لگے مگر جذبات کا رنگ ایما کی محبت کا عطا کردہ ہے۔"

ایما اور اقبال کے درمیان خطوط کے علاوہ تصاویر کا بھی تبادلہ ہوا

ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق دونوں کے درمیان خطوط کے علاوہ تصاویر کا بھی تبادلہ ہوتا رہا۔ زندہ رود میں شامل اقبال کے خطوط کے اقتباسات اس کی گواہی پیش کرتے ہیں۔

26 فروری 1908ء کو ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں، ”آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہےاور ہمیشہ مجھے ان سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔"

ایک اور خط میں اقبال تحریر کرتے ہیں، ”دونوں تصویریں بہت خوبصورت ہیں اور ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے کی میز پر رہیں گی۔ لیکن مت باور کیجئے کہ وہ صرف کاغذ پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے دل میں بھی جا پذیر ہیں اور تادوام رہیں گی۔ شاید میرے لیے ممکن نہ ہو گا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ سکوں مگر یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں حقیقی قوت بن چکی ہیں۔ میں کبھی آپ کو فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کو یاد کرتا رہوں گا۔"

اقبال خواہش اور کوشش کے باوجود ایما سے دوبارہ کیوں نہ مل سکے؟

اقبال یورپ میں، کے مصنف اور ڈاکٹر سعید اختر درانی کے بقول ایما 1908ء کے لگ بھگ ہندوستان آنا چاہتی تھیں مگر ان کے گھر والے دور دراز سفر کے لیے نہ مانے۔ دوسری طرف اقبال بار بار یورپ جانے اور وہاں ہمیشہ کے لیے رہنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ ایما کو ایک خط میں وہ لکھتے ہیں، ”کچھ عرصے بعد جب میرے پاس پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ کو اپنا گھر بناؤں گا۔"

اقبال کے ایما کے نام خطوط کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور خطوط 1907ء سے 1914ء تک۔ دوسرا دور  1931ء سے 1933ء تک۔  اس دوران اقبال نے محض 1919ء میں ایک خط لکھا۔

اس عقدے کی گرہ کشائی کرتے ہوئے ظفر سید ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”جب تک یورپ لوٹنے اور ایما سے دوبارہ ملنے کا امکان تھا اقبال نے خط و کتابت جاری رکھی۔ لیکن ہندوستان میں اقبال کی زندگی اتنی مختلف ڈگر پر رواں تھی کہ انہیں یہ خواب پورا ہوتا نظر نہ آیا اور یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔"

وہ کہتے ہیں، ”ایما کی محبت ایک چنگاری کی طرح اقبال کے دل میں سلگتی رہی۔ گول میز کانفرنس کے سلسلے دوبارہ یورپ جاتے ہی یہ بھڑک اٹھی اور اقبال نے دوبارہ خط لکھے۔ مگر تب شاید دیر ہو چکی تھی۔ اقبال کے اندر کشمکش تھی، ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والی کیفیت تھی، ان کا دل چاہتا تھا مگر ان کی عائلی زندگی اور شخصی عظمت رکاوٹ بن گئی۔ یوں ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ "

پاکستانی نژاد جرمن سیاستدان کا سیالکوٹ سے ہائیڈل برگ کا سفر