1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہایران

تہران میں پہلی بار پانچ سو خواتین شائقین فٹ بال اسٹیڈیم میں

27 اگست 2022

ایران میں چالیس سالوں میں پہلی بار خواتین شائقین کو لیگ کے میچ میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن یہ ’’تاریخی واقعہ‘‘ فیفا کی جانب سے معطلی سے بچنے کے لیے ایسوسی ایشن کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4G8KD
Iran weibliche Fußballfans dürfen ins Stadion
تصویر: DeFodi Images/picture alliance

وہ نیلی اور سفید ٹوپیاں پہنتی ہیں، اپنے کلب 'استقلال تہران‘  کا جھنڈا اٹھائے نظر آتی ہیں اور کچھ نے تو اپنے گالوں پر اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کا نمبر پینٹ کر رکھا ہے۔ ''استقلال تہران‘‘ اور ''مس کرمان‘‘ کے درمیان لیگ کا کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی، اسٹیڈیم کے سامنے موجود خواتین شائقین بڑے اچھے موڈ میں نظر آ رہی تھیں۔

 40 سالوں میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ خواتین کو فٹ بال لیگ کےمیچوں میں شرکت کی اجازت  ملی ہے۔ ایرانی وزارت کھیل کے ترجمان نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ خواتین کے لیے لگ بھگ 28,000 ٹکٹیں دستیاب ہوں گی۔

ٹکٹوں کی تقسیم پر تنقید

فٹ بال کے دیگر شائقین نے بھی کارڈ کی تقسیم پر تنقید کی۔ 500 ٹکٹوں کے کوٹے کو مختص کرنا زیادہ تر شائقین کے لیے انتہائی سخت اور امتیازی اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹکٹوں تک رسائی کو انتہائی غیر شفاف اور مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ تہران میں مقیم IRIB ریڈیو کی ایک اسپورٹس رپورٹر کے لیے، یہ کھیل صرف ایک آغاز ہے ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''آغاز کے طور پر آپ کو اسے اسی شکل میں قبول کرنا ہوگا - 500 خواتین تماشائیوں کے ساتھ۔  تاہم اگر اسے لیگ کے اگلے گیمز کے لیے اتنا ہی محدود رکھا گیا تو پھر اسے ناقابل قبول قرار دینا ہوگا۔‘‘

آبادی میں اضافے کے لیے نیا ایرانی قانون ’حقوق نسواں کے منافی‘

Iran weibliche Fußballfans dürfen ins Stadion
اسٹیڈیم کے باہر پولیس کنٹرولتصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

''نیلی لڑکیاں‘‘

صحر خُدایاری کو بھی فٹ بال سے بے حد الفت تھی۔ 2019 ء میں وہ 29 سال کی تھیں، تب انہوں نے ایک لمبا کوٹ پہننےکے بعد نیلی ویگ لگا کر ایک مرد فٹ بال فین کا روپ دھارا اور  تہران کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں داخل ہو گئیں۔ اُن کے اس 'غیر اسلامی حلیے‘ کی وجہ سے انہیں گرفتار کرنے کے بعد تین دن کے لیے جیل بھیج دیا گیاتھا۔ 1979 ء میں ایران میں برسر اقتدار آنے والی '' ملاؤں‘‘ کی حکومت کے نزدیک نیم برہنہ مردوں کور دیکھنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ صحر خُدایاری پر  ''عفت یا پاک دامنی کے قانون کی خلاف ورزی، غیر اخلاقی رویے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توہین‘‘ کا الزام عائد کیا گیاتھا۔

ڈرامائی فیصلہ

 تین دن تک زیر التوا رہنے والے مقدمے کی سماعت کے بعد رہائی ملنے پر صحر خُدایاری نے ایک ڈرامائی فیصلہ کیا۔ انہوں نے تہران کی انقلابی عدالت کے سامنے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ آس پاس موجود راہگیروں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن  شدید جھلس جانے کے باعث وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئی تھیں۔خدایاری کی تدفین ان کی جائے پیدائش ُقم شہرکے باہر ان کے اہل خانہ کی عدم موجودگی میں کی گئی۔ حکومت کی طرف سے ان کی آخری رسومات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

Fußball Teheran Iran vs Irak | weibliche Fans
ایرانی خواتین نے چار دہائیوں تک اس دن کا انتظار کیاتصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

صحر خُدایاری کی ہولناک کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور تب ہی سے فٹ بال کلب استقلال تہران کی علامت ''بلیو گرل‘‘ بن گئی۔ ساتھ ہی  ''بلیو گرل‘‘ ایران میں خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کی علامت بھی ہے۔

اُس وقت بین الاقوامی فٹ بال فیڈریشن  فیفا نے بھی تہران حکومت پر زور دیتےہوئے کہا تھا کہ ،''ہم ایرانی حکام سے ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس جائز لڑائی میں شامل تمام خواتین کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ ایران کی جانب سے خواتین پر اسٹیڈیم می داخلے کی پابندی کو ختم کیا جا سکے۔‘‘

خواتین کے خلاف ''سیاہ مرچ اسپرے‘‘ کا استعمال

فیفا کے باس گیانی 2019 ء میں ایران گئے تھے اور اُس وقت کے صدر حسن روحانی اور ایرانی فٹ بال ایسو سی ایشن کے سابق صدر مہدی تاج کےساتھ انہوں نے دوبدو بات چیت کی تھی اور واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ خواتین کو تمام لیگ گیمز اور بین الاقوامی میچوں تک غیر محدود رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ فیفا نے پہلےاپنے قواعد کی عدم تعمیل پر ردعمل کے طور پر ایرانی فٹ بال ایسوسی ایشن کی رکنیت معطل کر دی تھی۔

بہت سے نوجوان ایرانی باشندے ’عربی میں شادی‘ کی تقریب کے خلاف

Fußball Teheran Iran vs Irak | weibliche Fans
عراق بمقابلہ ایران: خواتین حب الوطنی کے جذبے سے سر شارتصویر: Majid Asgaripour/WANA/REUTERS

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک سابق ٹی وی اسپورٹس پریزنٹر محمد ہیرانی نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ سن 2007 میں پہلی بار معطلی کے بعد فیفا کی طرف سے قائم کردہ عبوری کمیٹی نے جان بوجھ کر عالمی گورننگ باڈی کو دھوکہ دیا، انہوں نے مزید کہا، ''فیفا کی ہدایات کے برعکس، اس وقت، جب قومی ایرانی فٹ بال فیڈریشن (IRIFF) کے قوانین کا ضروری نیا ورژن تیار کیا جا رہا تھا، ایسوسی ایشن کے معاملات میں سیاست دانوں کی مداخلت کو نہیں روکا گیا۔‘‘  اس ٹی وی میزبان کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ نے کبھی بھی IRIFF کی خود مختاری کو قبول نہیں کیا۔

کیا ایران کی فیفا میں رکنیت دوبارہ معطل ہو جائے گی؟

IRIFF کی فیفا سے ایک مرتبہ پھر معطلی کا امکان ایرانی فٹ بال پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ ایک بار پھر، ایسوسی ایشن کے معاملات میں حکومت اور پارلیمنٹ کی مسلسل مداخلت کے ساتھ ساتھ اسٹیڈیم میں خواتین کے داخلے کی شرط کی عدم تکمیل اس کی وجوہات ہیں۔ محمد ہیرانی کے بقول، '' ایران میں رائے عامہ اس وقت اپنی فٹ بال ایسوسی ایشن کی ممکنہ معطلی کا خیرمقدم کرتی ہے تاکہ  اس سے جڑےنظام کو  از سر نو تشکیل دیا جا سکے۔‘‘ ہیرانی کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی ایسوسی ایشن معطلی سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ آزادی اسٹیڈیم میں 500 خواتین کا دورہ ''تاریخی واقعہ‘‘ ہے جو تمام صورتحال کو خوشگوار اور ہموار بنانے کے لیے تعلقات عامہ کی ایک شعبدہ بازی ہے۔

 

(تھوماس کلائن/ فرید اشرفیان/ جوناتھن کرین) ک م/ ش ر