1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایم ایف کے وفد کی عمران خان سے ملاقات: خوشی اور تنقید

عبدالستار، اسلام آباد
8 جولائی 2023

پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے عہدیداران اور پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کی ممکنہ تشریحات مختلف حلقوں میں زیر بحث ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Tceb
IWF Logo, Schild
تصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

سابق وزیر اعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان لاہور میں حالیہ ملاقات کی ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر تشریح کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی اس ملاقات پر شادیانے بجا رہی ہے جبکہ حکومت اور کچھ ماہرین اسے ایک عام ملاقات قرار دے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بین الاقوامی ادارے موجودہ حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے جبکہ پی ٹی آئی کے مخالفین عمران خان کو ان کا وہ وعدہ یاد دلا رہے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ 'آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کر لیں گے‘۔

تین ارب ڈالر کے نرم قرضے: اسٹیٹ بینک اور قرض پالیسی زیر بحث

آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیریز نے کل تحریک انصاف کے سربراہ  عمران خان سے لاہور میں زمان پارک میں ایک ملاقات کی تھی، جس میں ویڈیو کال پر پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے بھی شرکت کی تھی۔ سابق وزیر حماد اظہر، شاہ محمود قریشی، مزمل اسلم اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اس ملاقات میں ذاتی موجودگی کے ساتھ یا پگر ویڈیو کال کے ذریعے شرکت کی تھی۔

آئی ایم ایف نے اس ملاقات کا مقصد یہ بتایا کہ وہ تین بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے آئی ایم ایف کے وفد نے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

عمران خان کا خطاب

اس ملاقات کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ وہ اس معاہدے کو نئی حکومت کے آنے تک سپورٹ کرتے ہیں اور یہ کہ نئی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد اپنے پروگرام کے مطابق آئی ایم یف سے بات چیت کرے گی۔

پی ٹی آئی کے ایک رہنما رؤف حسن کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات اس پارٹی کی سیاسی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

Pakistan Lahore | Ehemaliger Premierminister Imran Khan im AFP-Interview
آئی ایم ایف کے عہدیداروں نے لاہور میں عمران خان سے ملاقات ان کی رہائش گاہ پر کیتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

غیر معمولی ملاقات 

رسمی بیانات سے دور سیاسی حلقوں میں اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ اس کی کامیابی ہے۔

پارٹی کے ترجمان برائے معاشی امور نے اس ملاقات کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔ میں آئی ایم ایف کو 30 سال سے کور کر رہا ہوں۔ لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی میٹنگ سے پہلے اس کے عہدیدار اس طرح کسی ملک میں حزب اختلاف سے ملے ہوں۔ تو میرے خیال میں یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔‘‘

سیاسی حیثیت کا اعتراف

نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان میں تحریک انصاف کے خلاف ایک کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے 10 ہزار سے زیادہ کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ پارٹی رہنماؤں پر یہ دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑ دیں۔

آئی ایم ایف بورڈ ڈیل کی منظوری دے دے گا، شہباز شریف پرامید

تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ ملاقات بہت اہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب حکومت وقت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ تحریک انصاف ختم ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تحریک انصاف ختم ہو رہی ہے، تو کوئی عالمی ادارہ اس کی قیادت سے ملاقات کرنے کیوں آئے گا؟ اس سے یہ تاثر بھی جاتا ہے کہ یہ عالمی ادارہ پی ٹی آئی کو ایک طاقتور سیاسی جماعت سمجھتا ہے، جو تمام تر کریک ڈاؤن کے باوجود اب بھی سیاسی طور پر بہت توانا اور طاقت ور ہے۔‘‘

سیاسی اثرات

حبیب اکرم کے مطابق اس ملاقات کے بعد حکومت اس بات پر مجبور ہو گی کہ وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے۔ انہوں نے کہا، ’’اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی حد تک نرمی برتی جائے۔ یہ حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے اور اس ملاقات سے یہ لگتا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے۔ آئی ایم ایف سے ملاقات بھی یہی تاثر دیتی ہے کہ یہ بین الاقوامی ادارہ ملک میں سیاسی استحکام چاہتا ہے۔ اس سے پہلے زلمے خلیل زاد اور چین نے بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کے حوالے سے بات کی تھی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات ہوں، جو اب وقت پر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

آئی ايم ايف کے ساتھ معاہدہ، بازار حصص ميں مثبت رجحان

ڈولتی معیشت پاکستان کو دیوالیہ کا شکار بھی کر سکتی تھی

معمول کی ملاقات

معاشی امور کے چند ماہرین تحریک انصاف کے شادیانوں کو غیر منطقی اور بلاجواز قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ملاقاتیں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ معاشی امور کے ماہر خرم حسین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ملاقاتیں ماضی میں پہلے بھی ہوئی ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایم ایف اس طرح کی ملاقاتیں عموماﹰ ایسے وقت پر کرتا ہے، جب کسی ملک میں انتخابات ہونے والے ہوں۔ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب ممکنہ طور پر تین حکومتیں اس معاہدے کے مرحلے سے گزریں گی۔ موجودہ حکومت، نگران حکومت اور پھر انتخابات جیت کر آنے والی حکومت۔‘‘

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ: پاکستان کو اب کیا کچھ کرنا ہے؟

خرم حسین کے مطابق 1994 میں بھی نگران حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کا ایک وفد اس طرح سیاسی جماعتوں سے ملنے کے لیے آیا تھا۔ ''اس ملاقات کا مقصد صرف یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کو مختلف سیاسی جماعتوں کا آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے نقطہ نظر بتایا جا سکے۔‘‘

خرم حسین نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کی مخالفت بھی کرے گی، تو بھی یہ پروگرام پٹڑی سے اترے گا نہیں، ''اس لیے اس ملاقات پر شادیانے بجانا سمجھ سے باہر ہے اور اس کی کوئی منطق بھی نہیں۔‘‘

آئی ایم ایف چیف کا پاکستانی اقتصادی حالت پر اظہار ہمدردی