1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُمید صبح جمال رکھنا، خیال رکھنا!

25 دسمبر 2023

محمد علی جناح اپنے تئیں ایک قوم اور ایک ریاست کی تشکیل کر گئے مگر اُن کی قوم تقریبا 76 برس بعد بھی اندھیرے میں روشنی کی تلاش میں ہے۔

https://p.dw.com/p/4aZ8x
DW Mitarbeiterportrait | Kishwar Mustafa
تصویر: Philipp Böll/DW

پچیس دسمبر دنیا کی آبادی کے اکتیس فیصد سے زائد پر مشتمل عیسائیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس دن ہے اور دنیا بھر میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس دن کو منانے کی تیاریاں کئی ہفتے پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور اس تہوار سے منسلک متعدد رسم و رواج سے محض مسیحی عقیدہ رکھنے والے ہی نہیں بلکہ ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسے منانے کے طریقے ہر انسان کو دلچسپ اور پُر کشش لگتے ہیں اس لیے وہ کسی نا کسی انداز میں ان رسومات میں شامل ہو جاتا ہے۔

اُدھر پاکستان میں 25 دسمبر کو بابائے قوم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی جاتی ہے اور ملک بھر میں چراغاں کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ارباب اختیار بانی پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کے مزار پر پھول چڑھاتے ہیں اور عوام کو اتحاد، ایمان اور یقین کے اصولوں پر عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

 عوام ایک دن کی چھٹی منانے کی خوشی میں مست نظر آتے ہیں۔  ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ غربت کی ماری 80 فیصد عوام ہر سال اُسی جوش و جذبے کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، جس کا اظہار وہ گزشتۃ برسوں میں پچیس دسمبر کو کرتی آئی ہے۔ ملی نغموں کی گونج بھی زیادہ تر متوسط اور  غریب علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔ لیکن معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ معاشرہ اپنی سمت کھو چُکا ہے جبکہ عوام شعور اور فکری ترقی سے بہت  دور جا چُکے ہیں۔

اس مرتبہ قائد اعظم کے 147ویں یوم ولادت کے موقع پر شاید جوش و جذبہ اور عقیدت و احترام تو ماضی جیسا ہی نظر آ رہا ہے تاہم معاشرے کی مجموعی صورتحال پر گریہ کرنے کا جی چاہتا ہے۔

برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام پر ہی محمد علی جناح کا خواب مکمل نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اس سر زمین کو جیسا بنانا چاہا تھا ویسا تو کجا پاکستان تو ہر طرح کے مسائل اور تنزلی کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی ریاست بن کر رہ گیا ہے۔ آج جب ہم محمد علی جناح کو ان کے جنم دن پر خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں تو کیا ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی کرنی چاہیے کہ اپنے قیام کے 76 سال  گزرنے کے بعد بھی پاکستان اپنے بانی کے خواب کے قریب تک نہیں پہنچ سکا۔

 کیا آج کا پاکستان جناح کے اُصولوں، تعلیمات، پاکستان میں رہنے والے تمام انسانوں، چاہے ان کا کسی عقیدے، کسی فرقے، کسی لسانی گروپ سے تعلق ہو، کے لیے امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کا خواب پورا کر سکا؟

جناح نے تو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، گڈ گورننس، احتساب، سماجی انصاف، مذہبی رواداری، دیانتداری، محنت اور فلاحی ریاست جیسے نظریات کو اپنا نصب العین بنایا تھا۔ ایسا کیوں ہے کہ بابائے قوم، جو قانون کی پاسداری کے حوالے سے رول ماڈل ہونے چاہیے تھے، اپنے ملک کو اپنے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیکھنے سے قاصر رہے؟

اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دو ہزار تیئیس میں پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام جناح کے وژن کی تکمیل سے کیوں دور ہے اور پاکستانی قیادت کو اس کا ادراک کیوں نہیں؟

مسیحی دنیا پر نظر ڈالیں تو ہمیں تاریخ کے سیاہ باب میں ہونے والے جنگ و جدل، خانہ جنگیاں، نوآبادیاتی نظام اور دیگر سیاسی اور سماجی برائیوں سے عبارت بے شمار واقعات بادشاہت، آمریت، فسطائیت سب ہی کچھ ملتا ہے لیکن مغربی معاشروں نے اپنی زبوں حالی کو ترقی میں تبدیل کرنے کے لیے بے مثال اور قابل قدر جدو جہد کرتے ہوئے، جو ترقی کی اُس کے نتائج نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے معاشرے پر نظر ڈالیں تو صرف نعروں، ملی نغموں اور ظلم و جبر اور تشدد کی گونج سنائی دیتی ہے۔

ہرسال پچیس دسمبر کو ملی نغمہ بجا کر نئے دِنوں کی مُسافتوں کو اُجالنے اور وفا سے آسُودہ ساعتوں کو سنبھالنے کا زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اس ملک اور قوم کو مزید پستی میں دھکیلنے سے روکنے کے لیے خالی اُمیدِ صُبحِ جمال رکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ ارباب اختیار کو جھنجھوڑنا ہوگا کہ وہ قائد کے خواب کو تو ٹوٹنے سے نا بچا سکے لیکن بچی کھچی قوم اور ریاست کا حقیقی معنوں میں خیال رکھیں۔