1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسآسٹریلیا

ریٹینا میں سولر پینل لگانے سے بصارت کی بحالی کی کوششیں

7 اپریل 2024

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، جس میں انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردہ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eUP1
Menschliches Auge mit ganz speziell gemusterter Iris
تصویر: Schieder Markus/Zoonar/picture alliance

نیورو پروستھیٹک دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسےآلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے، جو نظام اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضاء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال کوکلیئر امپلانٹ ہے، جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کے لیے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، جس میں انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردہ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں، جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد میں بصارت کو بحال کیا جا سکے۔ مگر آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ 

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس نئی تحقیق سے امید ہو چلی ہے کہ جلد ہی نابینا اور بوڑھے افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو گا۔ ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر اوڈو رؤمر سے اس تحقیق پر خصوصی بات چیت کی ہے۔

انسانی ریٹینا میں آلہ نصب کرنے میں کون سی دشواریاں حائل ہیں؟

ڈاکٹر اوڈو رؤمر انجینئر ہیں۔ وہ سولر پینل ٹیکنالوجی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فوٹو ریسپیٹرز بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔

ڈاکٹر رؤمر مزید بتاتے ہیں، ''انہی ریسیپٹرز کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسے ریٹینس پگمینٹوسا اور عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ ریٹینس پگمینٹوسا بصارت کی وہ بیماری ہے، جس میں آنکھ کے مرکز میں پردہ چشم متاثر ہونے سے مریض کو رات میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ 

Symbolbild I Anatomie I menschliches Auge
چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں، ڈاکٹر رؤمرتصویر: picture-alliance/Silas

وہ مزید بتاتے ہیں کان میں سماعت کے لیے کوکلیئر امپلانٹ سرجری کئی عشروں سے کی جا رہی ہے۔ اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کے لیے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کے لیے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں۔ لیکن اس کے لیے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ 

نئی تحقیق کیا ہے؟

ڈاکٹر رؤمر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں، ''سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں "ویژول فیلڈ" بناتے ہیں جس سے بصارت کا احساس  پیدا ہوتا ہے۔ 

ڈاکٹر رؤمر مزید بتاتے ہیں کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کے لیے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 

 ڈاکٹر رؤمر کے مطابق اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کے لیے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں۔ جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 

وہ مزید بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔

تحقیق کے نتائج کیا ہیں؟

ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کے لیے زیادہ وولیٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے، جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ وہ بتاتے ہیں اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے، جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کے لیے درکار پکسل سائز میں لانا ہو  گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کے لیے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔

 ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کے لیے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ 

اس تکنیک میں کون سی پیچیدگیاں حائل ہیں؟

ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے۔ تین سولر سیلز پر مشتمل یہ ڈیوائس جب آنکھ میں نصب کی جائے گی تو غالب امکان ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے شاید ریٹینا کے غیر فعال ریسیپٹرز دوبارہ کام شروع نہ کریں۔ لہذا ان افراد کو مخصوص گوگلز (عینک) استعمال کرنا ہوں گی، جو سورج کی روشنی کی شدت کو ضروری حد تک بڑھائیں گے تاکہ نیورونز کو متحرک کیا جا سکے۔ 

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس بات کو دوہرائیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی تحقیقی مراحل میں ہے اور اسے بصارت کے مسائل یا نابینا افراد کے لیے کلینیکلی دستیاب ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ 

ایک ریسرچ بدل سکتی ہے قسمت نابینا افراد کی