1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

انسان ہر ہفتےکتنی مقدار میں مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں؟

25 جون 2023

کرۂ ارض پر ہوا اور پانی میں مائیکرو پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی مقدارانسانی صحت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یونیورسٹی آف سڈنی کی ایک تحقیق کے مطابق انسان ہر ہفتے سانس کے ذریعے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Szr0
Primäres Mikroplastik
تصویر: Alexander Stein/JOKER/picture alliance

انسان کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں اور زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتے ہوئے پلاسٹک کے استعمال کے باعث ماحول اور پانی کے ذخائر میں مائیکرو پلاسٹک کی بڑھتی مقدار کئی نئے چیلنجز کا سبب بن رہی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک دراصل انتہائی چھوٹے سائز کے وہ ٹکڑے ہیں، جو پلاسٹک سے بنی اشیاء کو تلف کر نے کے دوران ہوا میں اور بعد ازاں پانی یا مٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

 یہ مائیکرو پلاسٹک انتہائی زہریلے کیمیکل پر مشتمل ہوتا ہے، جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر اندرونی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔  

یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان ہر گھنٹے سانس کے ذریعے سولہ اعشاریہ دو بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔ مزید اعداد و شمار سے یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ انسان ایک ہفتے میں 2721.6 بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں، جو ایک کریڈٹ کارڈ میں پلاسٹک کی مقدار کے برابر ہے۔  

یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے منسلک سائنسدان محمد ایس اسلام کی سرکردگی میں ہونے والی یہ تحقیق رواں ہفتے سائنسی جریدے فزکس آف فلوئڈز میں شائع ہوئی ہے۔ 

مائیکرو پلاسٹک پر نئی تحقیق کیا ہے؟

 تحقیق کی سرکردگی کرنے والے محمد ایس اسلام یونیورسٹی ٹیکنالوجی سڈنی میں میٹریل اینڈ پراسس انجینئرنگ کے شعبے سے باحیثیت محقق وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کرۂ ارض پر ہوا، پانی اور مٹی میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات لاکھوں ٹنوں کی تعداد میں شامل ہو چکے ہیں۔ سن 2022 میں ایک تحقیق کے نتائج سے سامنے آیا تھا کہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات انسان کی سانس کی نالی میں بھی پائے گئے ہیں۔ 

 ایس اسلام بتاتے ہیں کہ اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی ٹیم نے کمپیوٹیشنل فلوئڈ ڈائنامکس ماڈل کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مختلف اشکال اور سائز کے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے کس طرح نظام تنفس میں داخل ہوتے ہے۔ ان کا کہنا  تھا کہ مختلف اشکال کے ان ٹکڑوں کا سائز دوانچ سے پانچ ملی میٹر تک تھا۔ جبکہ کچھ ٹکڑوں کا سائز پانچ اعشاریہ چھ مائیکرون تک بھی نوٹ کیا گیا۔ یہ انسانی بال کی چوڑائی کے ساتویں حصے کے برابر ہے۔ دورانِ تحقیق سائنسدانوں نے آہستہ اور تیز سانس لینے سے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑوں پر پڑنے والے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا۔

تحقیق کے نتائج کیا ہیں؟

ایس اسلام کے مطابق ان کی تحقیق سے معلوم  ہوا کہ سانس لینے کے عمل میں ہوا میں موجود انتہائی چھوٹے سائز کے مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے انسانی نتھنوں، حلق اور گلے کے پچھلی جانب چلے جاتے ہیں، ''نتھنوں، حلق اور سانس کی نالی کی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ مائیکرو پلاسٹک کو بہاؤ کے اصل راستے سے ہٹا کر ان جگہوں پر جمع کر دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ حلق میں مائیکرو پلاسٹک کا یہ ذخیرہ بڑھتا جاتا ہے۔‘‘ 

اسلام مزید بتاتے ہیں کہ مائیکرو پلاسٹک جتنے چھوٹے سائز کا ہو گا وہ سانس کی گزرگاہوں میں اتنی ہی زیادہ مقدار میں جمع ہو جائے گا۔ اسی طرح سانس کی رفتار بھی اس کے ذخیرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر سانس زور سے لی جائے تو مائیکرو پلاسٹک نتھنوں یا حلق میں جمع ہونے کے بجائے بہاؤ میں نکل جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ عمر رسیدہ یا بیمار افراد مدہم سانس لیتے ہیں اس لیے ان کے نظام تنفس میں مائیکرو پلاسٹک ذخیرہ ہونے کا خدشہ دیگر افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔

مائیکرو پلاسٹک کے مضر اثرات کیا ہیں؟

ایس اسلام بتاتے ہیں کہ وہ علاقے جہاں کارخانے، فیکٹریاں یا صنعتیں آبادی کے قریب واقع ہیں، وہاں کے رہائشی مائیکرو پلاسٹک براہ راست نگل رہے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر مائیکرو پلاسٹک صنعتوں میں اس سے تیار کردہ اشیاء کی ری سائیکلنگ یا تلف کیے جانے کے دوران ماحول میں شامل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں دمہ، پھیپڑوں اور سانس کے دیگر امراض پر بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ 

ایس اسلام کے مطابق مائیکرو پلاسٹک میں انتہائی زہریلے کیمیکلز شامل ہوتے ہیں، جو اینڈوکرائن گلینڈ اور غدودکے نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی جسم پر مائیکرو پلاسٹک کے مکمل اثرات پر مزید تحقیق جاری ہے۔ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق مائیکرو پلاسٹک جسم میں زندہ خلیوں کو مارنے، انہضام اور سانس کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ جبکہ کچھ جانوروں جیسے چوہے اور کچھوؤں میں مائیکرو پلاسٹک سے جنسی تولید اور نر اور مادہ کی شرح پیدائش متاثر ہونا بھی نوٹ کیا گیا ہے۔

پلاسٹک کے کچرے سے بنے چھوٹے مکان