1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امراض قلب: خون کو پتلا کرنے والی نئی دواؤں کی ’افادیت‘

15 جون 2012

دل کے لاکھوں مریضوں کے لیے خون کو پتلا کرنے والی دوا کی دو نئی اقسام کو گزشتہ ساٹھ برس میں وارفارین گولی کا پہلا متبادل قرار دیا جا رہا ہے، جسے بہت سے مریض منفی اثرات کے خدشات کی وجہ سے لینے سے کتراتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15G0C
تصویر: picture-alliance/dpa

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق وارفارین کے استعمال سے متعلق خدشات پھر بھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ نئی دواؤں سے جڑے خدشات اور ان کی وجہ سے ہونے والی اموات کے باعث امریکا میں بعض اعلیٰ ڈاکٹر انہیں تجویز کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان دواؤں کے استعمال پر مریضوں کی حالت کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے۔

زیادہ تشویش ان میں سے پراڈاکسا دوائی پر ظاہر کی جا رہی ہے جو جرمن دوا ساز ادارے بوئیہرنگر کی پیش کش ہے اور اسے دِن میں دو مرتبہ لینا ہوتا ہے۔ امریکی فُوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اکتوبر 2010ء میں اسٹروکس کے خلاف اس دوائی کی منظوری دی تھی۔ تب وارفارین کے بعد پیش کی جانے والی دل کے مرض کی یہ پہلی نئی گولی تھی۔ وارفارین 1950ء کی دہائی میں پیش کی گئی تھی۔

بوئیہرنگر انگیلہائیم کے مطابق منفی اثرات کے لیے تریاق بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس کمپنی نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔

نئی دوا کے بارے میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ویٹرنز ایڈمنسٹریشن ہیلتھ کیئر سسٹم میں انجمادِ خون کے حوالے سے سہولتوں کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلن جیکبسن کہتے ہیں: ’’اچھی خبر یہ ہے کہ اب آپ کے پاس وارفارین کا متبادل ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ اگر اسے مناسب طریقے سے استعمال نہ کیا گیا تو اس نئی دوائی سے بھی آپ اتنی ہی آسانی سے لوگوں کو مار سکتے ہیں، جتنی آسانی سے آپ پرانی دوائی سے کرتے تھے۔‘‘

Screenshot www.bifonds.de
یورپی ریگولیٹرز بوئیہرنگر کو ہدایت کر چکے ہیں کہ وہ پراڈاکسا کے پیکٹ پر منفی اثرات سے متعلق انتباہ جاری کرےتصویر: b.i.f.

وارفارین کے متبادل کے طور پر سامنے آنی والی دوسری گولی Xarelto ہے، جسے دِن میں ایک مرتبہ لینا ہوتا ہے۔ یہ دوائی جانسن اینڈ جانسن کمپنی نے بائر اے جی کے ساتھ مل کر بنائی ہے اور اسے گزشتہ برس نومبر میں آزمائشی منظوری ملی تھی۔ ڈاکٹر اس دوائی کے بارے میں فی الحال پراڈاکسا کے مقابلے میں کم معلومات رکھتے ہیں۔

اس بیماری سے تقریباﹰ تیس لاکھ امریکی متاثر ہیں، جس کے نتیجے میں خون دِل کے اسٹوریج چیمبر میں جمع ہو جاتا ہے، جہاں وہ جَم سکتا ہے اور پھر دماغ کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

ان دونوں نئی دواؤں میں وارفارین کے منفی اثرات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، جن میں دماغ کی شریانیں پھٹنا اور خون بہہ جانے کی دیگر خطرناک حالتیں شامل ہیں۔

وارفارین استعمال کرنے والے مریضوں کی حالت کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے خون کا باقاعدہ معائنہ کیا جاتا ہے جبکہ انہیں اپنی خوراک کی عادات اور طرز زندگی بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ دِل کے امراض کے لیے ان دواؤں کی مارکیٹ کا سالانہ حجم کم از کم دس بلین ڈالر ہے۔

ng/ai (Reuters)