1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

’افغان خواتین کی مدد کے لیے ہرممکن ذرائع استعمال کیے جائیں‘

8 مارچ 2023

جرمن کیتھولک چرچ کی خواتین کی ایسوسی ایشن اور جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ترقیاتی اور امدادی ادارے ’میزیریؤر‘ نے جرمن حکومت سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔

https://p.dw.com/p/4OOLL
Internationaler Frauentag 2023 | Themenbild | Afghanistan, Weberinnen
تصویر: Ebrahim Noroozi/dpa/picture alliance

جرمنی میں کیتھولک چرچ کے ان اداروں کی طرف سے برلن حکومت سے یہ اپیل دراصل آٹھ مارچ کو منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے کی گئی۔ ان اداروں نے وفاقی جرمن حکومت سے کہا ہے کہ وہ  افغان شہری آبادی کی حمایت جاری رکھے اور خاص طور پر خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ اس سلسلے میں شدید مشکلات کے سدباب کے لیے فوری امداد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں خاص طور سے خواتین کی ابتر صورتحال کے پیش نظر طویل المدتی امداد پر زور دیا گیا ہے۔ 

 

جرمن کیتھولک چرچ کی خواتین کی ایسوسی ایشن اور جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ترقیاتی اور امدادی ادارے Misereor 'میزیریؤر‘ کے نمائندوں نے امسالہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا، ''افغانستان میں طالبانکے دور حکومت میں عوامی زندگیاں ویران ہو چُکی ہیں۔ اس لیے ہم وفاقی جرمن حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘ افغانستان میں خواتین کے ساتھ اور ان کے لیے بنیادی سماجی ڈھانچے کی بہتری کے ترقیاتی منصوبوں کو دسمبر میں عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔

کیتھولک چرچ کی ان دونوں تنظیموں نے مزید کہا ہے کہ افغانستان میں چاہے طالبان کی ناانصافی کا نظام کتنا بھی مضبوط نظر آئے اور شہری آبادی کی مدد کا کام جتنا بھی مشکل ہو، افغان شہریوں، خاص طور سے خواتین کو مدد اور تمام افغان باشندوں تک امداد غیر مشروط طریقے سے پہنچنی چاہیے۔

Afghanistan Frauen Mädchen Symbolbild
افغان خواتین کے گھروں سے بغیر مرد محافظ کے باہر نکلنے پر پابندیتصویر: DANIEL LEAL/AFP

خواتین میں بھوک کے خطرات

گزشتہ سال دسمبر سے افغانستان میں سرکاری تنظیموں میں  خواتینکے کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔ نتیجہ یہ کہ خواتین اور لڑکیاں، جن کی دیکھ بھال صرف خواتین ہی کر سکتی ہیں، ان تک اب مناسب امداد نہیں پہنچ رہی۔ ’میزیریؤر‘ سے منسلک افغان امور کی ایک خاتون ماہر انا ڈرکسمائیر کہتی ہیں، ''افغانستان میں طالبان نے صنفی علیحدگی کا سختی سے حکم دے کر خواتین اور ان کے بچوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''طالبان نے، اقوام متحدہ کے دباؤ میں، اب انسانی امداد میں کام کرنے والی خواتین پر سے پابندی ہٹا دی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب خواتین کو گھر تک محدود رکھا جائے گا اور انہیں صرف ایک مرد محافظ کے ساتھ عوامی مقامات یا گھر سے باہر جانے کی اجازت ہو گی، تو طبی دیکھ بھال، تعلیم یا دیگر امدد تک خواتین کی رسائی نہ ہونے کا خطرہ واضح طور پر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ انا ڈرکسمائیر کا مزید کہنا ہے، ''اس سے ان کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بیوہ، سنگل پیرنٹ یا تنہا والدین اور خواتین اور لڑکیاں، جو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور ہیں، وہ خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں۔‘‘

افغانستان میں یونیورسٹی پر پابندی کے خلاف طلبہ کا احتجاج اور گرفتاریاں

Afghanistan | Afghanische Studentinnen reagieren gegen das Studienverbot
افغان لڑکیاں تعیلم حاصل کرنے کے بنیادی حق کے حصول کی جدوجہد میںتصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

 افغانستان میں امدادی سرگرمیاں

Misereor افغانستان میں 50 سال سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہے۔ یہ ادارہ 40 سالوں سے مقامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر کچھ منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اس وقت وہاں جن 12 ترقیاتی اور امدادی منصوبوں پر کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کا تعلق بنیادی طور پر صحت، تعلیم اور معاشی شعبوں سے ہے، جس کے لیے سات ملین یورو کی امدادی رقم مختص کی گئی ہے۔

'میزیریؤر‘ کے  افغانستان میں پروجیکٹ پارٹنرز میں سے ایک نے ایک تعلیمی منصوبے کا وہ حصہ روک دیا ہے، جس کی طالبان نے صرف لڑکوں اور مردوں کے لیے اجازت دی تھی۔ دوسری طرف، 'میزیریؤر‘ ملک کے شمال میں خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دینے کا کام جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شمالی علاقے میں موجود خواتین نے بہادری کے مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی طالبان کے ساتھ اس پروجیکٹ کے بارے میں مذاکرات کیے ہیں۔