1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اطالوی ایلپس میں ’چھوٹا چین‘

عاطف توقیر
6 فروری 2018

اٹلی کے ایپلس کے پہاڑی سلسلے میں قیمتی دھاتوں اور مواد کی تلاش میں سرگرداں چینی ورکرز کی تعداد اتنی ہے کہ بولی جانے والی چینی زبان اس علاقے کو کسی ’چینی علاقے‘ کا رنگ دیتی ملتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2sB2M
Chinesische Steinmetze in Italien
تصویر: DW/G. Saudelli

دھول ایسی ہے کہ ہر منظر دھندلایا ہوا ہے۔ پتھروں پر پڑتی ضربوں کی آواز اور اڑتی دھول اس پورے علاقے میں مناظر کے بہت سے رنگ چھپا دیتی ہے، مگر یہاں موجود بہت سے چینی سنگ تراش کے درمیان بولی جانے والی زبان اس دھندلائے ہوئے منظر کو الگ ہی کوئی رنگ دیتی ملتی ہے۔

امریکی مجسمہٴ آزادی کے پیچھے ایک عرب خاتون کا تصور؟

ہٹلر کے مجسمے کی قیمت لاکھوں ڈالر

بھارت میں لاکھوں سال پرانے پتھر کے اوزاروں کی دریافت

قیمتی پتھر نہیں یہ بارودی مواد تھا

یہاں پتھروں میں موجود قیمتی مواد کی دیکھ بھال کے جملے اور قریب موجود ٹرمپ پر ان چٹانوں کے بڑے بڑے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو چڑھایا جا رہا ہے۔ ٹرک پتھر لاد دیے جانے کے بعد نشیب کو سفر شروع کرے گا اور یہ پتھڑ چھوٹے سے دیہات باگنولو میمونتے اور بارگے میں قائم کارخانوں تک پہنچائے جائیں گے۔ یہ اس پورے علاقے کا روز مرہ کا معمول ہے۔ یورپ کے کسی ایک حصے میں چینی شہریوں کے  ارتکاز کے اعتبار سے یہ علاقہ سب سے آگے ہے۔ اس علاقے میں چینی افراد کی تعداد مقامی آبادی کے قریب دس فیصد کے برابر ہے۔ اس علاقے میں چینی شہریوں کی موجودگی اس قدر ہے کہ برگے نامی قصبے میں ’ہو‘ سب سے زیادہ عمومی نام ہے۔

اس علاقے میں چینی شہریوں کی آمد کا سلسلہ قریب 20 برس قبل شروع ہوا تھا۔ یہ چینی یہاں کیوں آئے؟ جواب یہ ہے کہ اس علاقے میں موجود لُوسیرنا پتھر انہیں اپنی جانب کھینچ لایا۔ اس علاقے میں ’سرمئی سونا‘ نامی یہ پتھر مقامی اقتصادیات کے ایک ستون کی طرح ہے۔ یہ پتھر کئی تہوں پر مبنی ہے اور تعمیراتی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے سے اب تک قریب ڈیڑھ لاکھ ٹن لُوسیرنا نکالا جا چکا ہے جب کہ یہاں قریب 85 مختلف گھاٹیوں میں یہ کام جاری ہے۔ یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کے مطابق سن 2008ء میں اس صنعت کو شدید دھچکا پہنچا تھا اور تب سے تعمیری شعبے میں اس کی کھپت میں خاصی کمی ہوئی ہے۔

یہ ہیرا آیا کہاں سے؟

اطالوی شہر میلان میں ایک چینی لیجنڈری شخصیت ڈینگ لُنچیاؤ نے سن 1994ء میں پتھر کی سِل دیکھی تھی۔ یہ سِل لُوسیرنا پتھر کی تھی۔ اسی کے تعاقب میں وہ بیرگے تک پہنچے اور پھر اس پتھر میں چینی باشندوں کی دلچپسی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کا حصول ایک صنعت بن گیا۔ اس علاقے میں ایک طویل عرصے تک مختلف فیکٹریوں کو افرادی قوت کی ضرورت رہتی تھی جب کہ انہیں مزدور نہیں ملتے تھے اور اسی وجہ سے ڈینگ نے پتھر کی اس صنعت میں ملازمتوں کے لیے چینی باشندوں کے لیے دروازے کھول دیے۔ تبھی سے چینی باشندے یہاں موجود ہیں اور اب یہ علاقہ اطالوی زبان کے ساتھ ساتھ چینی زبان کے صوت سے گونجتا رہتا ہے۔